فیصلہ کن مرحلہ قریب
نواز شریف اور مریم نوازکی وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی۔ تین بار وزیراعظم رہنے والا شخص دربدر ہوا لیکن عزم مصمم سے نہیں بھاگا سیاست میں عزت بھگوڑوں اور بزدلوں کو نہیں ملتی دارورسن کا سامنا کرنے والوں کو ہی لوگ سر کاتاج بناتے ہیں بھٹو تختہ دار کونہ چومتے تو آج بھٹو بھٹو نہ ہوتی آصف زرداری کو مردِ آہن ایسی لئے کہا گیا کہ انہوں نے سالہا سال لانڈھی جیل کو اپنا مسکن بنایا۔ نواز شریف اڈیالہ کی آزمائش سے گھبراتے تو اُنکے نام کو گہن لگ جاتا۔ دارورسن کی آزمائش سے دنیا کے بڑے سے بڑے پارسا گزرے 25 جولائی کو سیاسی مطلع صاف ہو جائیگا۔
یحییٰ خان کے کرائے انتخابات کی شفافیت پر آج تک کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا۔ ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔ آزمائش امتحان اور مشکل اللہ سے تعلق کو مضبوط کرتی ہے، تو کل کا مفہوم سمجھاتی ہے۔ پاکستان میںکئی بار انتخابات ہوئے لیکن ایسا ماحول اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب تو سیاسی نظری فکری اختلافات کی گنجائش ہی نہیںچھوڑی گئی۔ ایسے اختلافات ذاتی دشمنی کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ نیچے اوپر تین انتخابی جلسوں میں دو اُمیدواروں کی اور اُنکے ساتھیوں کی شہادت اور سینکڑوں کارکنوں کا زخمی ہونا بہت ہی المناک ہے۔ 25 جولائی سے پہلے ووٹروں کا درجہ¿ حرارت ناقابلِ برداشت حد تک بڑھتا جا رہا ہے ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قوم کسی شخص کوساتویں آسمان پر پہنچاتی ہے اور پھر اس کی مخالفت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ عشقِ کرسی میں ذہن بھی بہک جاتا ہے۔ مخالفین نفرت میں ایسے ایسے الزام طعنے دئیے اور دشنام طرازی کرتے ہیں کہ افسوس ہوتا ہے۔ نواز شریف جیسے تجربہ کار سیاستدان کو 2013ءہی میں عمران خان کامطالبہ مان کر چار حلقوں میں ری پولنگ کرا دینی چاہئے تھی۔ مشرف سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے سابق آرمی چیف کے لئے لفظ غدار بہت مہنگا پڑ گیا۔ 28 جولائی 2017ءکو نااہلی کے بعد کچھ عرصے کیلئے چپ کا روزہ رکھ لیتے۔ زرداری سے بھی نظریں نہ پھیرتے پاکستان کو کون کیسے اور کب بدلے گا؟ بیورو کریسی کو سچ مچ عوام کے کسی مسئلے اور دکھ سے سروکار نہیں حافظہ قاریہ روبینہ گریڈ 19 کی عربی کی پروفیسر اور صدارتی ایوارڈ یافتہ اور فن قرا¿ت کی امام تھیں ان کی 24 دسمبر 2017ءکووفات ہوئی ان کے سرکاری واجبات کی ادائیگی آج تک ممکن نہ ہوسکی۔ ”پکیاں سڑکاں سوکھے پینڈے“ کا نعرہ محض جھوٹ کے سوا کچھ نہ نکلا جلسے جلوسوں کارنر میٹنگوں سے عوام کے مسائل کبھی حل نہیں ہونگے۔ یہ تو ووٹ مانگنے سبز باغ دکھانے بہلانے سہلانے کے ذرائع ہیں ہر جماعت نے الیکشن جیتنے کیلئے الیکٹ ایبلز کو پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر پرچند خاندان چھائے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے دباﺅ پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن ابھی مزید کم کرنے کی گنجائش ہے۔ پٹرولیم مصنوعات حکومت کی کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ پی ایس او ایم ڈی کا پیکج 45 لاکھ ماہانہ ہے۔ اتنی تنخواہ تو پاکستان میں آرمی چیف اور چیف جسٹس کی نہیں۔ شہباز شریف کا نام بدلنے کا ڈائیلاگ عالمی شہرت اختیار کر گیا ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم نہ ہو تو میرا نام شہباز شریف اور نام بدلنے کی نئی شرط سامنے آئی ہے۔ پنجاب کو ملائیشیا اورترکی کے مقابلے میں نہ لایا تو میرانام بدل دینا وہ یہ ڈائیلاگ بولنے کی بجائے اتنا کہہ دیا کریں کہ میں اور میری ٹیم تبدیلی کیلئے بھرپورکوشش کرتے رہیں گے آپ بھی میرا ساتھ دیں۔ جعلی بینک اکاﺅنٹس کیس میں زرداری، فریال تالپور اور 3 بینکوں کے سربراہ قانون کی گرفت میں آ گئے۔ 200 اہم شخصیات کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا بجا ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو تو ملک کے آدھے مسئلے حل ہو جائیں انتخابی مہم کی کوریج کے دوران ملک کا کونہ کونہ دکھایا جا رہا ہے ہرجگہ گندگی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کچرے کے ڈھیروں پانی کی قلت گلیوں میں پانی کے جوہڑوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ گویا ہر سطح پر ذمہ داروں سرکاری اہل کاروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں گوورننس کا یہ عالم ہے کہ معمولی خاکروب بھی کسی کے بس میں نہیں۔ نہ جانے کب یہ ملک آئیڈیل ملک بنے گا بلدیاتی اداروں کا کیا رول ہے کونسلر یونین کونسل ضلع کونسل کارپوریشنیں میئر ڈی سی او ، ڈی سی، کمشنر کیا کرتے ہیں پاکستان کی کوئی سڑک گڑھوں سے پاک نہیں۔ جا بجا گڑھوں سے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصان کا کوئی تو ذمہ دار ہونا چاہئے۔
پاکستانی عوام کا بنیادی مسئلہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ کیا ہر انتخابی حلقے کے ہر محلے میں صاف پانی کا فلٹر لگنا ممکن نہیں ہو سکتا کروڑوں کے ترقیاتی فنڈ کہاں جاتے ہیں؟ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ووٹروں نے امیدواروں کے خلاف زبان کھولی ہے۔ انتخابی دفاتر پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔ تشدد بھی ہو رہا ہے چور چور کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ ڈرانے دھمکانے کا حکم جاری ہے۔ فائرنگ کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ نگران حکومت کی گورننس پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ 2018ءکے انتخابات کے نتیجے میں بننے والے اسمبلی فرشتوں پر مشتمل نہیں ہو گی وہی چہرے وہی ایک دوسرے کے رشتہ دار ہونگے۔ پاکستان میں ایک بھی رہنما نیلسن منڈیلا یا مہاتیر محمد جیسا نہیں نہ ہی کسی میں طیب اردوان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ زکوة فطرہ قربانی کی کھالیں 25 ہزار نوجوانوں کی لاشیں گرانے والے آج بھی جاگ مہاجر جاگ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ناقص ترقیاتی کاموں کی قلعی کھل رہی ہے ہر کام ادھورا پڑا ہے ٹھیکیدار کام ادھورے چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی حالت دل ہلا دینے والی ہے۔ بھاشا اور مہمند ڈیموں سے زیادہ چھوٹے چھوٹے سرکاری منصوبوں کو مکمل کرنا ضروری ہے۔ پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاﺅسنگ فاﺅنڈیشن کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ جس نے لاکھوں سرکاری ملازموں کے اربوں کھربوں روپے رکھنے کے باوجود انہیں آج تک یہ نہیں بتایا کہ وہ کب اور کہاں پلاٹ یا گھر الاٹ کریگی۔
ریٹائرڈ سرکاری ملازمین 2008ءسے آج 2018ءتک زندگی کی بازی ہارتے جا رہے ہیں۔ ایف آئی اے نیب اور سپریم کورٹ کے سوا ان ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے پاس کوئی آسرا نہیں۔ ان بیچاروں کی کوئی ایسوسی ایشن نہیں جو پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرتی یا چیف جسٹس کی لاہور رجسٹری کے باہر جمع ہو جاتی ہاﺅسنگ فاﺅنڈیشن کا کیس جعلی بینک اکاﺅنٹس کیس سے کہیں بڑا کیس ہے پراپرٹی ڈیلرز مافیا نے بوڑھے سرکاری ملازمین کو بے بس اور لاچار کر رکھا ہے کاش محترم ثاقب نثار صاحب ان پر رحم فرما دیں۔
2018 کے الیکشن کے نتیجے میں شہباز شریف اقتدار چاہتے ہیں یا مضبوط اپوزیشن کا کردار، نواز شریف کے بعد احتسابی دھارے کا رخ زرداری جانب مڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ مک مکا باریوں اور فرینڈلی اپوزیشن کا دور اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ میثاق جمہوریت مک مکا کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آصف زرداری گہرے پانیوں میں اترتے دکھائی دے رہے ہیں بلاول کا مستقبل تابناک، مگر حکومت عمران خان بنائیں گے پاکستانیوں کو سستا اور شفاف انصاف تحریک انصاف بھی نہ دے سکی تو پھر چوتھا لیڈر کون ہوگا۔ تربیلا ڈیم ڈیڈلیول تک کیسے پہنچا ہے، ایف بی آر کا کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہوا، سیلاب سے بچاﺅ کے فنڈ میٹروبس پر کیو ں کر لگائے گئے۔ ایل این جی مزید مہنگی ہونے جا رہی ہے سندھ میں لاکھڑا کول پلانٹ 100میگاواٹ تھا کچھ لوگوں نے بند کرکے اسے تباہی سے دو چار کیا ہے تاکہ اس کی نج کاری ناگزیر بنا دی جائے پاکستان کے پہلے کول پاور پلانٹ کے دو جنریٹر بند ہو چکے ہیں نندی پور کو 22ملین ڈالر دیا اسے 100ارب نہ ملے تو کچرا بن جائیگا اسے اونے پونے پرائیویٹ کمپنیوں کو دینے کے بعد باقی سرکاری کمپنیوں کی نج کاری کا راستہ کھل جائیگا۔ لاکھڑا پلانٹ بک گیا تو نجی مالکان بجلی کی قیمت اپنی مرضی سے مقرر کرینگے نہ تنخواہوں کے پیسے ہیں نہ پلانٹ کی مرمت کے پیسے۔وزارت خزانہ اور وزارت نج کاری کی ایک پالیسی ہے یہ مشرف دور میں بنا تھا ساہیوال اور پورٹ قاسم میں کول پاور پلانٹ موجود ہیں آئل مافیا کو یہ سوٹ نہیں کرتا تھا کول پلانٹ کو مسلسل چلانا ہوتا ہے گنجائش سے کم چلایا گیا چیف جسٹس اس کیس کو عدالت میں لا سکتے ہیں نیب کو فرصت نہیں کہ وہ نندی پور اور لاکھڑا کی تحقیقات کرے۔
35ارب روپے کی پی پی کے دور میں منی لانڈرنگ کا کیس کھل چکا ہے یعنی بوگس اکاﺅنٹس کک بیکس سامنے آئے۔ ایف آئی اے 2015 ءسب سارے کرداروں کے سامنے پہنچ چکی تھی نواز شریف کے کہنے پر فواد حسن فواد نے اس تحقیقات کو روکا جس پر چوہدری نثار ناراض ہوئے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی منی لانڈرنگ پر نظریں ہیں 29جعلی اکاﺅنٹس بنائے گئے۔ ایف اے ٹی ایف نے بلاجواز ہمیں گرے لسٹ میں نہیں ڈالا زرداری نے نواز شریف کی سزا کے اعلان پر خاموشی اختیار کی، سینٹ کی طرح اپنے وزیراعظم کو لانے کا زرداری کا خواب چکنا چور ہورہا ہے ۔ زرداری کو پتہ چل چکا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے ایف آئی اے کیلئے امتحان ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کے اس کیس کو کیسے انجام تک پہنچاتی ہے۔ یوبی ایل سمٹ بنک سندھ بنک سے رقم یو اے تک گئی سپریم کورٹ اس بات کا بھی نوٹس لے کہ صوبوں کے محکمہ انٹی کرپشن ناکام ادارے ہیں۔ ہائی ویز ٹورازم پولیس کے افسر ڈیپوٹیشن پر انٹی کرپشن میں براجمان ہیں سیاسی اثر و سوخ استعمال کرتے ہیں انٹی کرپشن کارول پٹواری سے آگے نہیں جاتا۔ بڑے سکینڈل نیب کے پاس ہیں۔ انٹی کرپشن ادارے کو نیب کا ذیلی ادارہ بنا دیا جائے اپنی کرپشن کا دوسرا نام ”مک مکا“ رکھ دیا جائے زیادہ تر درخواستیں بلیک میلنگ کیلئے دی جاتی ہیں نام نہاد محب وطن بوگس درخواستیں دیتے ہیں۔ ایجنٹ مافیا نے اسے انسداد کرپشن کی بجائے فروغ کرپشن کا ادارہ بنا دیا ہے عمران نے اپنے انتخابی منشور میں فلاحی سیاست کی جھلک دکھا دی ہے کرپشن ختم ، ایک کروڑ نوکریاں 50لاکھ گھر گورننس میں تبدیلی ، پانی کا ضیاع روکنے کےلئے ڈیم مسئلہ کشمیر کے حل کا آغاز حوصلہ افزا باتیں ہیں ۔ سیاسی منشور پر بھٹو کے سوا کسی نے عمل نہیں کیا تھا لیکن اب یوں لگتا ہے کہ عمران بھٹو سے بھی بڑا انقلابی حکمران ثابت ہوگا اس لئے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ اگر وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام رہا تو اس کا انجام نواز شریف اور زرداری سے بدتر ہوگا اس لئے کہ باری لینے کے بعد عمران کے پاس شکوہ کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔
آف شور کمپنیوں کے حوالے سے علیم خان اور مونس الہی بھی طلب کئے گئے ہیں حسین لوائی اور سندھ کا اومنی سکینڈل کان پکڑوا دےگا۔ ایان علی بیرون ملک روانہ ہوئی تھی اب کوئی بچنے والا ہوگا نہ بچانے وال۔ا لوگ مارشل لاﺅں کو بھی بھول جائینگے جب وردی والوں کے گرد خوشامدی حصار باندھ لیتے اور شیروانیاں پہن لیتے تھے چار بنکوں سے 80ارب سے زائد کی دستاویزات مل چکی ہیں۔ منی لانڈرنگ کا یہ سب سے بڑا سکینڈل ہے وہ وقت بھی آنے والا ہے جب ناجائز کمائی کے بل پر بنائی جائیدادوں کا ملک گیر سروے ہو گا کہ سرکاری انسپکٹروں کلرکوں پٹواریوں اور افسروں نے اپنے ظاہری ذرائع آمدنی سے بڑ چڑھ کوٹھیاں مارکیٹیں پلازے کیسے بنائے۔ زرعی اراضی کے مالک کیسے بنے۔ ایک سے زیادہ قیمتی گاڑیاں کہاں سے آئیں کرپشن کے ترازوں میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں پلڑوں میں بٹھا دئیے گئے ہیں اب کوئی میثاق جمہوریت اور این آر او کا نام بھی نہیں لے سکے گا اب انقرہ بیجنگ اور جدہ سے کوئی سفارش موصول نہیں ہوگی۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کی کرپشن کے سیاہ بادل آسمان پر مشرق سے مغرب ساری دنیا چاند اور سورج گرہن کی طرح دیکھ چکی ہے، اب کوئی سیاسی مظلوم اور سیاسی یتیم پر رحم نہیں کھائے گا۔ عمران خان جو نظر آ رہا ہے وہ حلف اٹھاتے ہی کسی بے رحم چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر سے کم ثابت نہیں ہوگا اسکے احکامات کا ایجنڈا اسکے دل میں بند ہے اسے عمران اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اسکی نشری تقریر کوئی نہیں لکھے گا۔ وہ فی البدیہہ طویل خطاب کریگا ملک بھر کے تھانیداروں کو پہلی اور آخری وارننگ ہوگی کہ ہر سال کی ایف آئی آر بلا تامل درج کریں۔ جھوٹے پرچوں کو خارج کریں علاقے میں قحبہ جوئے خانے خانے فحاشی اور منشیات فروشی اور جسم فروشی کے اڈے سے مٹا دیں کسی سیاسی ٹیلی فون کی پروا نہ کریں۔ کلرک اور افسر فائلوں کو راتوں رات نمٹائے بغیر گھر کی راہ نہ لیں ہر سرکاری افسر 24 گھنٹے ہرپاکستانی کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھے چھوٹی عدالتیں 12 ہفتوں میں دیوانی مقدموں کو نمٹا دیں۔ تاریخیں دینے کے کلچر کو دفن کر دیں، پرائیویٹ تعلیمی ادارے اورہسپتال اپنی فیسوں کو 50 فیصد تک کم کریں کسی گلی محلہ، سڑک بازار اور مارکیٹ میںکچرے کا ڈھیر دکھائی نہ دے۔ ذمہ داروں کو دور عمرانی میں چارج شیٹ جواب طلبی نہیں بلکہ سیدھا گھر بھیجا جائےگا۔ کوئی او ایس ڈی بن کر گھر بیٹھے روٹیاں نہیں توڑے گاعمران کا حکم ہو گا ملک بھر کے ہر محکمے کے بخیئے اڈھیڑ دئیے جائیں جو کام کریگا کارکردگی دکھائے گا تنخواہ لے گا ترقیاں محض اے سی آر کی بنیاد پر بلاتحقیق نہیں بلکہ پرفارمنس کی بنیاد پر ہو گی۔ کالجوں کے اساتذہ کی پروموشن بھی ان کے شاگردوں کی شہادت اور نتائج سے منسلک ہو گی۔ ملاوٹ کرنےوالے کان پکڑیںگے محض چھاپے اور جرمانے نہیں دکانیں ہمیشہ کیلئے بند اور ملاوٹ کرنے والے بھی اڈیالہ جیسی جیلوں کا مزہ چکھیں گے۔ مسلک عقیدے کی بنیاد پر دین کی تقسیم کو بھی ختم کیا جائیگا۔ پیپلزپارٹی کے منی لانڈرنگ سکینڈل کے گرداب میں آنے کے بعد زرداری نے ڈپریشن کا شکار ہو کر خودکو انتخابی مہم سے الگ کر دیا۔ زرداری نے 2013ءکو آر اوزکے انتخابات اور 2018ءکے انتخابات کو فرشتوں کے انتخابات سے موسوم کیا ہے۔ انہوں نے نوازشریف کے خلائی مخلوق کا متبادل لفظ فرشتے استعمال کیا ہے۔ لفظ خلائی مخلوق کی قیمت چکاتے ہوئے نوازشریف ایوان فیلڈ کے ہاتھوں اڈیالہ جا بسے اور اب زرداری ”فرشتوں“ کی قیمت ادا کرتے ہوئے اپنے پرانے ٹھکانے مکن لانڈھی کی طرف بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔ بات ایون فیلڈ تک ہی نہیں رکے گی۔ چیمہ اور فواد بیورو کریسی کے لئے عبرت کے نشان بنیں گے۔