افغانستان: تبدیلی کی ہوائیں؟
جولائی کے مہینے میں دنیا میں اہم واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑی خبر شمالی کوریا کا امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد وہ بیان ہے جس نے امریکی انتظامیہ کے اس خواب کو چکنا چور کردیا جس میں انہوں نے شمالی کوریا کو یکطرفہ طور پر اپنی ایٹمی صلاحیت کو تلف کرتے دیکھا تھا۔ وزیر خارجہ کے دورے کے بعد شمالی کوریا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی، غنڈوں (گنگسٹر) کے انداز میں دباو¿ ڈال کر مطالبات منوانا چاہتے ہیں‘. جبکہ وزیر موصوف کا واپسی پر بیان یہ تھا کہ انکی شمالی کوریا کے رہنماو¿ں سے تعمیری گفتگو ہوئی ہے۔ یہ ناخوشگوار صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ا±ن نے وزیر خارجہ سے ملاقات نہیں کی اور بعد ازاں اس طے شدہ اجلاس میں شمالی کوریا کے وفد نے شرکت نہیں کی جو امریکی فوج کیساتھ غیرجنگی زون میں ہونا تھی۔ اس سارے معاملے کا ایران کی صورتحال سے گہرا تعلق ہے۔ جب صدر ٹرمپ نے 8 مئی کو ایران کیساتھ امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ سلامتی کونسل سے منظور شدہ معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا، تو اس بات کا شدومد سے اظہار کیا تھا کہ انہوں نے شمالی کوریا کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنی ایٹمی صلاحیت سے رضاکارانہ طور دستبردار ہوجائے اور وہ بہت جلد اسکے لیڈر سے ملاقات کرکے اس عمل کو آگے بڑھائیں گے، جسکے بعد جزیرہ نما کوریا اور اسکے اطراف میں معاشی ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ لہذا ایران کو بھی اسی راستے پر آنا ہوگا۔ ان مشکلات کے باوجود صدر ٹرمپ کی صلاحیت یہ ہے کہ وہ اپنی کسی بھی ہزیمت کو ایک نیا رخ دیکر اپنی کامیابی کا تاثر قائم کردیتے ہیں۔ دوسری جانب یورپین یونین نے ایران کی درخواست پر ویانا میں پانچ ممالک (چین، روس، برطانیہ، جرمنی اور فرانس) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد کیا ہے۔ اس اجلاس کے بعد ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک اس معاہدے کی پاسداری کرینگے اور ایران کو معاہدے میں فراہم کردہ تجارت کی آسانیاں اور مالیاتی نظام میں شرکت کو یقینی بنائیں گے۔ اجلاس نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی اس رپورٹ کا خیرمقدم کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایران معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یورپین یونین کے اس عزم کے علی الرغم کاروباری مفادات بہت جلد اس کو امتحان میں ڈال دینگے۔ یورپ کی کارپوریشنز پر جب امریکہ کی طرف سے اسکی مارکیٹ کے دروازے بند ہونگے تو وہ اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکیں گی۔
اس ابھرتے ہوئے تناظر میں خصوصاً شمالی کوریا کیساتھ مذاکرات میں خفّت اور یورپین یونین، چین اور روس کا ایٹمی معاہدے کو بچانے کا عزم، کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو ترغیب مل سکتی ہے کہ وہ ایران کیخلاف مشترکہ کوئی کارروائی کرے۔ اسکے امکانات بہت کم ہیں، لیکن فی الوقت ان کا ہدف ایران کو شام سے نکالنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس مسئلے پر صدر ٹرمپ آئندہ چند دنوں میں صدر پیوٹن سے ہونے والی ملاقات میں بات کرینگے۔ انکی خواہش ہے کہ وہ صدر پیوٹن کو اس بات پر راضی کرسکیں کہ وہ ایران کی شام سے انخلاءکی حمایت کریں، جبکہ وہ اپنی طرف سے بشار الاسد کی علیحدگی کا تقاضہ نہیں کرینگے۔ لیکن اس بات کی قبولیت کا امکان کم ہے کیونکہ ایرانی ملیشیا حکومتی فورسز کا سب سے موثر حصہ ہے، جنہوں نے حکومت مخالف قوتوں کیخلاف حالیہ کامیابیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور خود روسی فوجیوں کا دفاع بھی وہ کر رہی ہیں۔ ان حالات میں ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کوششیں مشکلات کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں۔ لیکن یہاں بھی صدر ٹرمپ اپنی کامیابی کے اعلان کا راستہ ڈھونڈ سکتے ہیں، خصوصاً یہ کہہ کر کہ امریکہ کو یہاں ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور میں نے انخلاءکا راستہ کھول کر مزید امریکی جان و مال کو تلف ہونے سے بچا لیا ہے۔
افغانستان میں تکوینی منظر غیر معمولی تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کا تعلق امریکی فوجوں کی ممکنہ انخلاءکی خبروں سے ہے، جو ماضی میں اول، رائٹرز نے اعلیٰ افسران کے حوالے سے یہ اہم خبر دی ہے کہ صدر ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کی نئی پالیسی کی ایک سالہ مایوس کن کارکردگی کے بعد وائٹ ہاو¿س نے اس پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ، جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران افغان جنگ کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، بادل نخواستہ فوجوں کی تعداد بڑھانے پر راضی ہوئے تھے۔ ایک اہلکار نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’صدر ٹرمپ وقتاً فوقتاً پالیسی میں پیش رفت اور اسکے نتائج کا پوچھتے رہتے ہیں، اور یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ہم نے 2001 ءسے وہاں کتنا سرمایہ لگایا ہے اور کیا حاصل کیا ہے۔ وہ اکثر اپنی اس خفگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے اس قدر وسائل خرچ کرکے کیا حاصل کیا ہے‘۔ دوم، ایک حیرت انگیز انداز میں امریکی وزیر خارجہ نے شمالی کوریا سے واپسی پر کابل کا دورہ کیا ہے اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات میں انکی امن کی کوششوں کو سراہا اور انکی حمائت کا اعلان کیا۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کی نئی پالیسی متوقع نتائج دے رہی ہے۔ سوم، امریکہ وزارت خارجہ کی جنوبی ایشیا کیلئے اعلیٰ ترین عہدیدار مس ایلس ویلس نے اپنے پاکستان کے حالیہ دورے کے بعد کہا ہے کہ طالبان پر دباو¿ بڑھ رہا ہے کہ وہ بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔ پاکستان سے مذاکرات میں ان کا اصرار رہا ہے کہ وہ طالبان کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ امن کی کوششوں میں شامل ہوجائیں۔ چہارم، سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے گذشتہ دنوں دنیا بھر کے علمائے کرام کو جدہ اور مکہ مکرمہ میں اسلامی کانفرنس کے تحت ایک غیر معمولی اجلاس میں مدعو کیا ہے جس میں 35 علما ئے کرام کا وفد افغانستان اور 57 دیگر ممالک سے علمائے کرام نے شرکت کی ہے جس کا بنیادی مقصد افغانستان میں امن اور سلامتی کے فروغ کیلئے سفارشات مرتب کرنا تھا۔ نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس موقع پر ایک خط لکھ کر اس کانفرنس کے انعقاد پر اظہار تشکر کیا ہے اور انکی افغان امن کی بحالی کی کوششوں کو سراہا ہے۔ اس پیغام میں خود وزارت دفاع کی جاری امن کوششوں کی سپرستی کی واضح نشاندہی ہو رہی ہے۔ پنجم، طالبان نے عید کے موقع پر کی جانیوالی سیز فائر ختم ہونے کے بعد اس میں توسیع کرنے سے انکار کردیا ہے اور نہ ہی وہ مذاکرات میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن غیر مصدقہ اطلاعات کا کہنا ہے کہ بات چیت کا عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ہر مسئلے پر بات چیت کرنے کیلئے تیار ہے۔ دوسری جانب طالبان نے بھی اس لچک کا مظاہرہ کیا ہے کہ امریکی افواج کی واپسی ایک متفقہ اوقات کار کے تحت مرحلہ وار ہوسکتی ہے۔
امریکہ میں متعدد حلقوں سے یہ آوازیں شدت سے بلند ہو رہی ہیں کہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ جنگ وہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، جو افغان تعمیر نو کے منصوبے میں درج کیے گئے تھے۔ اس منصوبے کیلئے مقرر کردہ خصوصی انسپکٹر جنرل نے اپنی تازہ تریں رپورٹ میں لکھا ہے کہ تعمیر نو کے مقاصد نہ صرف حاصل نہیں ہوئے بلکہ کئی معاملات میں صورتحال اس سے زیادہ خراب حالت کو پہنچ گئی ہے جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ انہوں نے نارکوٹکس کی بڑھتی ہوئی پیداوار اور تجارت سے متعلق جن حقائق کا ذکر کیا ہے وہ خوفناک ہیں۔ ان واقعات کی موجودگی میں جنگ کا خاتمہ، امن کی بحالی اور افغانیوں کو اپنے فیصلے کرنے کی آزادی کی فراہمی وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ صدر ٹرمپ یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ کن کردار ادا کرکے تاریخ میں اپنا نام نیک نامی کے عنوان سے لکھوالیں۔