مسلم لیگ(ن) کے ’’الیکٹیبل‘‘ جیپ پر سوار
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار جنوبی پنجاب سے ایک سیاسی جماعت کے ’’الیکٹیبل ‘‘ کو تحریک انصاف میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا اور کچھ کو راتوں رات مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ واپس کر کے ’’جیپ‘‘ پر سوار کر دیا گیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی ’’پری پول ‘‘ رگنگ نہیں ہوئی لیکن اب کی بار تو ماضی کے تمام ریکارڈ ٹرٹ گئے مسلم لیگی ارکان کا ’’گھیرائو‘‘ کر کے انہیںاپنی سیاسی وفاداری تبد یل کرنے پر مجبور کیا گیا پہلے ان سے جنوبی پنجاب صوبہ ’’محاذ‘‘ بنوایا گیاجو’’ الیکٹیبل‘‘ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہوئے انھیں آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے کا چوائس دے دیا گیا یا کسی اور جماعت کا حصہ بننے کی اجازت دے دی گئی البتہ ان کو مسلم لیگ (ن) چھوڑنا پڑی ۔
جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن کے’’ الیکٹیبل‘‘ سیاسی لحاظ سے اتنے کمزور ثابت ہوئے ہیں کہ انھوں نے ’’غیر مرئی قوتوں‘‘ کے ایک اشارے پر اپنا ’’سیاسی قبلہ‘‘ تبدیل کر لیا لیکن ٹکٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ کو جنوبی پنجاب سے 8 امیدواروں نے پاکستان مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان ’’شیر‘‘ لینے کی بجائے ’’جیپ ‘‘کے نشان پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کر کے سیاسی حلقوں میں اضطراب پیدا کر دیا۔
’’ بے اصولی اور لوٹا کریسی‘‘کی بدترین مثال جنوبی پنجاب کے مختلف حلقوں میں دیکھنے میں آئی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، زور توڑنے کے لئے شروع دن سے ہی مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جو قوتیں مسلم لیگ ن کی اکثریت سے ’’خوفزدہ‘‘ دکھائی دیتی ہیں، وہ پاکستان مسلم لیگ کا ووٹ بینک تو نہیں توڑ سکیں لیکن اس کے امیدواروں کو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے روک دیا ۔تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو انتخابی میدان سے باہر کیا جا رہا ہے۔
2013 ء میں جنوبی پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن نے کلین سویپ کیا تھا۔ آزاد منتخب ہونے والے ارکان نے بھی پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ’’پری پول رگنگ‘‘ کا شکار صرف جنوبی پنجاب کے ’’الیکٹیبل ‘‘ ہی ہوئے ہیں جبکہ وسطی و شمالی پنجاب سے ایک دو کے سوا کسی مسلم لیگی ’’الیکٹیبل‘‘ نے اپنی سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کی۔ جنوبی پنجاب کے کمزور سیاسی پس منظر رکھنے والے الیکٹیبل نے پہلے صوبہ جنوبی پنجاب محاذ بنانے کا ڈرامہ رچایا اور پھر طے شدہ ’’سکرپٹ‘‘ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ مسلم لیگ ن کے ’’الیکٹیبل‘‘ نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے پر شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ ہی اپنے ووٹرز کے سامنے اپنی ’’بے اصولی‘‘ پر مبنی سیاست پر اظہار ندامت کیا۔
عام تاثر تھا کہ جنوبی پنجاب میں ’’الیکٹیبل‘‘ تین گروپوں میں منقسم ہو جائیں گے لیکن تازہ ترین حکمت عملی کے مطابق مسلم لیگ ن کے بیشتر امیدوار ’’دبائو‘‘ کے زیر اثر آ کر ’’جیپ‘‘ پر سوار ہو گئے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ آزاد ارکان کی ایک بڑی کھیپ تیار کی جا رہی ہے جو عام انتخابات کے بعد معلق پارلیمنٹ (Hung Parliament ) میں حکومت سازی میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ 2018ء کے انتخابات میں ’’جیپ کے نشان‘‘ نے غیر معمولی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ اب تو لوگ برملا کہنے لگے ہیں کہ جن لوگوں نے جیپ کا نشان حاصل کیا ہے، کامیابی ان کا مقدر بن گئی ہے۔
ہمارے دوست چوہدری نثار علی خان نے شروع دن سے اعلان کر دیا تھا کہ وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے لئے درخواست دیں گے اور نہ ہی وہ ’’شیر ‘‘ کے نشان پر انتخاب لڑنے کے متمنی ہیں۔ انھوں نے پارٹی ٹکٹ دینے یا نہ دینے کی باتیں کرنے والوں کو ٹکا سا جواب دے دیا تھا کہ وہ ٹکٹ مانگ رہے ہوں تو پھر ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے حلقہ کے ووٹرزچوہدری نثار علی خان یا اینٹی چوہدری نثار علی خان کیمپوں میں منقسم ہیں چوہدری نثار علی خان نے پارٹی ٹکٹ کے اجراء سے پہلے ہی اپنے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کر دیا تھا ۔ پارٹی نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا بلکہ ایک دن این اے 59 اور 63 اور پی پی 10 اور 12 کے لئے پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کئے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ شاید مسلم لیگ ن ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کر رہی ہے لیکن اگلے ہی روز مسلم لیگ ن نے مذکورہ حلقوں میں چوہدری نثار علی خان کے مخالف اپنے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹوں کا اجراء کر دیا۔
انجینئر قمر الاسلام جو کہ 2008 سے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ چل رہے تھے، کو چوہدری نثار علی خان کے مقابل مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دے دیا جس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیپ کا نشان حاصل کر لیا۔ اسی طرح عمران خان نے بھی چوہدری نثار علی خان کے مقابلے پر ایک حلقے میں امیدوار نہ کھڑا کرنے کے اعلان کے باوجود امیدوار کھڑا کر رکھا ہے۔ جب راقم السطور نے چوہدری نثار علی خان سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے کسی ایجنڈے کے تحت جیپ کا نشان حاصل کیا یا یہ محض اتفاق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کسی جیپ گروپ کا حصہ ہوں نہ اسے جانتا ہوں، جیپ کا نشان ایک آزاد حیثیت سے نمایاں نشان کے طور پر حاصل کیا ہے ‘‘۔
بعد ازاں چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں بھی وضاحت کی ’’ میں نے جیپ کا نشان لینے کا فیصلہ خود کیا ہے‘‘، جیپ کا نشان لینے پر افواہوں کا بازار گرم کیا جا رہا ہے، تین آپشن تھے، ہم نے جیپ لے لی، جن لوگوں نے جیپ لی ان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ چوہدری نثار علی خان اس وقت تک جیپ کا نشان لینے پر تیار نہیں تھے جب انہیں یقین ہو گیا کہ ان کے حلقے سے ٹریکٹر پر دوسرا امیدوار کھڑا نہیں ہو رہا تاہم ان کے سیاسی مخالف انجینئر قمر الاسلام کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بارے میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا ہے کہ ان کا قمر الاسلام کی گرفتاری میں کوئی عمل دخل نہیں بلکہ قمرالاسلام کو گرفتار کر کے اسے دانستہ ’’سیاسی شہید‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چوہدری نثار علی خان ’’مستقبل‘‘ کے وزیراعظم ہیں لہذا کوئی امیدوار ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔چوہدری نثار علی خان بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان کا تقابل نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری سے ہے ۔ چوہدری نثار علی خان نے اپنے سیاسی مخالف کی گرفتاری کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ ان کی الیکشن سے ایک ماہ قبل گرفتاری ان کو سیاسی نقصان پہنچانے کے لئے کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں میں 123 ارکان نے جیپ کا نشان حاصل کیا ہے۔ یہ جیپ ہمارے بعض اداروں کے زیر استعمال رہی ہے، اس کا بہت بڑا قبرستان راولپنڈی میں سی ایم ٹی اینڈ ایس ڈی میں ہے جہاں ہر سال ان جیپوں کی نیلامی ہوتی ہے اور’’ مہم جو ‘‘لوگ جیپ کو اپنی شان و شوکت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
بہر حال پاکستان مسلم لیگ ن کی بہت بڑی تعداد الیکٹیبل ’’شیر‘‘ سے اتر کر جیپ پر سوار ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ جیپ شیر سے اترنے والوں کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا سکے گی یا نہیں؟ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے لندن میں قیام کے دوران، بار بار کچھ اداروں پر ’’پری پول رگنگ‘‘ کے الزام عائد کر رہے تھے۔احتساب عدالت سے سزا اور جرمانے کے بعد وہ 13 جولائی 2018کو پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ انھوں نے پاکستان واپس آنے کا جرات مندانہ فیصلہ کر کے سیاسی مخالفین کو پریشان کر دیا ہے۔ جبکہ ان کے بھائی میاں شہباز شریف جو پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر بھی ہیں، پری پول رگنگ کے بارے میں انتہائی محتاط انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے الزام عائد کیا ہے کہ رانا اقبال سراج کو بعض اداروں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس واقعے کے تھوڑی دیر بعد رانا اقبال سراج نے اس واقعے کی تردید کر دی جبکہ مریم نواز نے کہا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ رانا اقبال کو کس نے بیان بدلنے پر مجبور کیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی اشک شوئی کے لئے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ میاں نواز شریف لندن میں رکنے کے پیغامات ملنے کی پروا کئے بغیر پاکستان واپس آ گئے ہیں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی عام انتخابات کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کی ہے جس میں انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ’’جیپ‘‘ ہماری نہیں جس پارٹی کو ہار کا خطرہ ہو وہ الزامات عائد کر دیتی ہے۔ ’’خلائی مخلوق‘‘ سیاسی نعرہ ہے، ہم خدا کی مخلوق ہیں۔ کسی جماعت سے وابستگی نہیں۔ بہرحال میاں نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ’’غیر سیاسی قوتیں‘‘ الیکشن کو مشکوک بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد سیاسی منظر یکسر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ۔ جو قوتیں مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگانے کی خواہش رکھتی ہیں، انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’’ جیل یاترا ‘‘ میاں نواز شریف کیلئے ’’ہمدردی‘‘ کے ووٹ بینک میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات میں ناقابل شکست قوت بن کر ابھرے گی۔ نواز شریف کو پاکستان کے سیاسی افق سے ہٹانا ناممکن ہو گا۔ ’’قیدی نواز شریف‘‘ سیاسی میدان میں سب پر حاوی ہو گا۔