اتوار ‘ 1439 ھ ‘ 15 جولائی 2018ء
عوم کو گدھا کہنے پر عمران خان کی نااہلی کیلئے درخواست
برسوں پہلے کی بات ہے کوئی خان صاحب جیسا صاحب دل اپنے گدھے کو لے کر کسی سکول پہنچا۔ استاد نے پوچھا کہ جناب یہ گدھے سمیت آپ مدرسے کیوں تشریف لائے ہیں وہ شخص بولا میں اپنے گدھے کو پڑھا لکھا انسان بنانا چاہتا ہوں۔ استاد بولا مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی گدھا انسان بنے۔ اس پر وہ صاحب بولے میں جب بھی سکول سے گزرتا ہوں تو آپ کہہ رہے ہوتے ہیں ”میں ان گدھوں کو انسان بنا رہا ہوں“۔ سو میں بھی آج اپنا گدھا لے کر حاضر ہوا ہوںکہ آپ اسے بھی انسان بنا دیں شاید اسی رعایت لفظی میں خان صاحب نے بھی انسانوں کو گدھا کہہ دیا ہے جو درست نہیں۔ ایسا کہنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اب اگر جواب میں کوئی صاحب ذوق گدھا کے بھائی کو خریا دراز گوش کہہ ڈالے تو بدمزگی پیدا ہو گی اس لئے انیس نے خیال خاطر احباب والی بات کی تھی کہ کہیں آبگنیوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ عمران خان ویسے ہی سیاست میں جس طرز تقریر اور طرز بیان کے بانی ہیں وہاں اس چیز کی پرواہ نہیں کی جاتی کہ کیا کہا جا رہا ہے زبان کے ساتھ ساتھ دہن بھی بگڑ رہا ہے مگر یہ زبان و بیان اگر مروج ہو گیا تو کیا ہوگا۔ ہماری سیاست جانوروں کا طویلہ(اصطبل) بن جائے گی۔ جہاں بھانت بھانت کے خطاب یافتہ سیاستدان اور انکے حامی اپنی اپنی بولی بولتے پائے جائیں گے اس لئے سیاستدانوں کو کم از کم اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہئے ۔ عوام کو ان کا تعلق خواہ کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو گدھا کہنا کسی پڑھے لکھے سیاست دان کے شایانِ شان نہیں۔ یہ تو جاہلوں کا طرز کلام ہے۔ کہتے ہیں لہجہ یعنی طرز گفتگو انسان کا پتہ دیتی ہے۔ خدا را کوئی بھی ایسا کلام نہ کریں جو ساکھ متاثر کرے۔ پاکستانی قوم باشعور ہے۔ اپنا اچھا برا جانتی ہے۔ صرف اپنی مخالفت پر عوام کی تذلیل نہایت گری ہوئی حرکت ہے۔ اس پر خان صاحب کو عوام سے جن کی دل شکنی ہوئی ہے معافی مانگنی چاہئے اب اگر عدالت نے خان صاحب کودھر لیا تو کیا ہو۔
٭....٭....٭....٭
پرکشش خواتین کو زیادہ فوکس نہ کریں، فیفا کی براڈ کاسٹرز کو تنبیہ
کھیلوں کی دنیا میں گلیمر کی چکا چوند کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عرصہ دراز سے کھیلوں کے مقابلوں کو رنگ و نور کے جلوﺅں سے سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب پاکستان میں کلر ٹی وی کا رواج نہیں تھا تب بھی بیرون ملک کرکٹ میچ دیکھنے والے زیادہ تر شائقین ٹی وی کے سامنے اس لئے بیٹھتے تھے کہ میچ کے دوران زیادہ تر ٹی وی کیمرے تماشائیوں کو دکھاتے تھے اور یورپ کے خوبصورت مرد و زن مختصر لباس میں گراﺅنڈ میں بیٹھے یا لیٹے خوش فعلیاں کرتے میچ دیکھ رہے ہوتے تھے اور پاکستان میں ٹی وی کے آگے بیٹھے شائقین میچ کے ساتھ ساتھ انہیں حسرت دیکھ رہے ہوتے تھے۔پھر کلر ٹی وی آیا تو یہ حسن عالم تاب زیادہ رنگا رنگ ہوگیا۔ اب روس میں فیفا ورلڈکپ کے مقابلوں میں بعض خوبصورت خواتین کے ساتھ کچھ ضرورت سے زیادہ پر جوش شائقین کی طرف سے گرمجوشی خاصی نامعقول حد تک بڑھنے لگی ہے تو فیفا نے یہ حکم جاری کیا ہے تاکہ معاملہ زیادہ آگے نہ بڑھے۔ ایسی باتیں گرچہ یورپ میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں مگر کھیلوں کے عالمی ایونٹس میں بہر حال نظم و ضبط برقرار رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ سارے تماشائی اگر اتنی خوشی سے محبت کا اظہار کرنے لگیں تو کھیل کا جاری رہنا خطرے میں پڑ سکتا ہے اور یہ مقابلے کھیلوں کی بجائے اظہار محبت کا ذریعے بننے لگیں گے۔
٭....٭....٭....٭
نوازشریف کا استقبال، حج سے بڑا کام ہے: رانا ثنائ
بولنا بہت ضروری ہوتب بھی انسان کم از کم پہلے تولے پھر بولے، مگر رانا ثناءاللہ لگتا ہے بولنے سے پہلے تولتے نہیں، پہلے بولتے ہیں پھر تولتے ہیں۔ اب بھلا نوازشریف کے استقبال کیلئے حج کی مثال دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ویسے ہی کہہ دیتے یہ بڑا اہم کام ہے۔ ثواب کا بھی دم چھلالگا دیتے۔ کوئی نہیں پوچھتا مگر یہ حج سے بڑا کام کہہ کر جو آگ بھڑکائی ہے۔ اب اس میں اب وہ خود بھی جلیں گے اور دوسروں کو بھی جلائیں گے۔ علماءکرام ویسے ہی مسلم لیگ (ن) پر نرمی دکھانے کے موڈ میں نہیں ابھی تک حلف نامہ گلے سے نیچے نہیں اتر رہا اب رانا جی نے یہ نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے۔ اب لاکھ وضاحتیں کرتے پھریں کہ یہ صوفیانہ استعارہ تھا۔کون مانے گا عوام ویسے ہی تصوف کی رموز سے ناآشنا ہیں یہ چیزیں سیاستدانوں کے سر سے گزر جاتی ہیں۔ عام لوگ اس کا جو مطلب نکالیں گے اس کا رانا جی کو حساب دینا تو پڑے گا۔ اگر صوفیانے مرشد کو ملنا یا ملنے کیلئے جانے کو حج کی تمثیل دے کر بیان کیا ہے تو وہ سیاستدانوں کیلئے استعمال کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ویسے ہی کہہ دیتے یہ سیاسی حج کے برابر ہے تو پھر لوگ توجہ نہیں دیتے درگزر کر دیتے ۔ اب لوگ تو شور کریں گے ۔ رانا جی کو الیکشن مہم میں اپنی بے سرو پا باتوں کی وجہ سے مشکل بھی پیش آ سکتی ہے۔ سو اب بھگتنے کو تیار رہیں۔ اسے ”شامت اعمال “ ہی کہا جا سکتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم جنوبی افریقہ نیشنل پراسیکیویشن کا مودی کیخلاف تحقیقات کا اعلان
لگتا ہے عالمی سطح پر کشمیریوں کی نسل کشی اور ان کی املاک تباہ و برباد کرنے والے مودی بھارتی وزیراعظم کیخلاف آوازیں مزید شدت سے بلند ہونے لگی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں مسلم لائرز ایسوسی ایشن نے نیشنل پراسیکیویشن کو درخواست دی ہے کہ بھارتی وزیراعظم برکس کانفرنس میں شرکت کیلئے جنوبی افریقہ آ رہے ہیں انہیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور املاک کی بربادی کے الزام میں گرفتار کیا جائے اس کے جواب میں جنوبی افریقہ کی نیشنل پراسیکیویشن اتھارٹی نے کہا ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کرے گی۔ اس خبر کے بعد نریندر مودی کی برکس کے جنوبی افریقہ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت خطرے سے خالی نہیں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے امریکہ نے گجرات میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کی وجہ سے مودی کی امریکہ آمد پر پابندی لگائی تھی۔ اب اگر ساری دنیا کے ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور وکلاءبرادری ایسی ہی درخواستیں دائر کر دے تو مودی جی کا بھارت سے باہر نکلنا مشکل ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں موجود اگر ہمارے سفارتکار جنوبی افریقہ کی مسلم لائرز ایسوسی ایشن کے اس اقدام کو ہی مشعل راہ بنا لیں اور ہر ملک کے مسلم لائرز کی مدد سے وہاں عدالتوں میں مقدمہ کشمیر دائر کریں تو اس کے بہت مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں جن سے نریندر مودی کو بچانا بھارت کیلئے خاصہ مشکل ہو سکتا ہے۔