مسلم لیگ (ن) کے قائد تو تاریخ میں امر ہوگئے مگر نگران حکمران سوچیں‘ انہوں نے اپنا تشخص کیا بنایا
میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ملک واپسی‘ گرفتاری‘ اڈیالہ جیل منتقلی اور لیگی کارکنوں پر ریاستی تشدد کی انتہائ
مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز کو جمعة المبارک کی شب نیب نے لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی حراست میں لے لیا۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز اتحاد ایئرلائنز کی پرواز ای وائی 243 کے ذریعے لندن سے براستہ ابوظہبی لاہور آئے تھے جہاں ڈائریکٹر جنرل نیب سلیم شہزاد اور ڈائریکٹر نیب امجد اولکھ نے ایئرپورٹ پر ہی انکے پاسپورٹ قبضے میں لے لئے اور پھر انہیں خصوصی چارٹرڈ طیارے کے ذریعے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ اس خصوصی طیارے نے رات دس بجکر 35 منٹ پر اسلام آباد میں لینڈنگ کی جہاں سے میاں نوازشریف اور مریم نواز کو پولیس کی بکتربند گاڑیوں میں بٹھا کر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ جیل کی سکیورٹی انکی آمد سے پہلے ہی ریڈالرٹ کردی گئی تھی۔ قبل ازیں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے میاں نوازشریف اور مریم نواز کو جیل بھجوانے کے احکام جاری کئے جبکہ انہیں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر احتساب عدالت میں نہیں لایا گیا۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی لندن سے لاہور آمد سے پہلے ہی رینجرز نے لاہور ایئرپورٹ کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا جہاں کسی کو پر مارنے کی بھی اجازت نہیں تھی جبکہ لاہور میں بعداز دوپہر دو بجے سے ہی موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی جو رات گئے تک بند رہی۔ اس طرح میاں نوازشریف کے استقبال کی تیاریاں کرنیوالے مسلم لیگی عہدیداروں اور کارکنوں کا ہی نہیں‘ عام شہریوں کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔
پنجاب کی نگران حکومت کے ایماءپر پولیس نے جمعرات کو ہی مسلم لیگی کارکنوں کیخلاف کریک ڈاﺅن شروع کردیا تھا جن کی گرفتاریوں کیلئے انکے گھروں پر چھاپے مار کر گھروں میں موجود خواتین‘ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے پولیس حوالاتوں میں بند کردیا گیا جہاں سے اگلے روز انہیں مختلف جیلوں میں بھجوایا گیا۔ مسلم لیگی کارکنوں‘ عہدیداروں اور قائدین کو میاں نوازشریف کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ جانے سے روکنے کیلئے صرف گرفتاریوں پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ جمعة المبارک کی صبح سے ہی لاہور آنیوالی تمام شاہراہوں اور اندرون لاہور کے بھی تمام راستوں پر کنٹینر لگا کر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں اور اسی طرح ایئرپورٹ جانیوالے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس‘ رینجرز اور دوسرے سکیورٹی اداروں کی بھاری نفری بھی تعینات کردی گئی جس کے باعث شہر میں دن بھر خوف و دہشت کی فضا طاری رہی۔ اس فضا میں بھی مسلم لیگی کارکنوں اور قائدین کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور گرفتاریوں سے خود کو بچا لینے والے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں نے ایک حکمت عملی کے تحت شہر کے مخصوص مقامات پر اکٹھے ہو کر ایئرپورٹ کی جانب گامزن ہونا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی اپنی دی گئی کال کے مطابق سینکڑوں لیگی کارکنوں کے ہمراہ بیرون لوہاری گیٹ آگئے جہاں سے انہوں نے ایک جلوس کی شکل میں ایئرپورٹ جانا تھا تاہم پولیس اور انتظامیہ نے جبری ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں بیرون لوہاری گیٹ پر ہی روکے رکھا جس کیخلاف مسلم لیگی کارکنوں نے پرامن احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرکے انہیں اشتعال دلانے اور منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم اپنے قائد کے استقبال کیلئے آئے لیگی کارکنوں کا جوش و جذبہ مزید بلند ہوگیا اور انہوں نے پولیس اور انتظامیہ کی کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھنا شروع کردیا۔ اس موقع پر پولیس اور کارکنوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا جس کے دوران پولیس نے نہتے کارکنوں کو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا اور بیشتر کارکنوں کو گرفتار بھی کرلیا جبکہ پولیس اور انتظامیہ کے پیدا کئے گئے جبر کے اس ماحول سے شہر میں کرفیو نافذ ہونے کا گمان گزرنے لگا۔
دوسری جانب میاں نوازشریف اور مریم نواز اپنے وطن کی سرزمین پر اترنے کیلئے بے تاب تھے جنہوں نے لندن میں دل پر پتھر رکھ کر بیگم کلثوم نواز کو انکے بے ہوشی کے عالم میں ہی الوداع کہا اور ووٹ کی عزت بحال کرنے کا عزم لے کر وہ ملک واپسی کیلئے ہیتھرو ایئرپورٹ لندن آگئے۔ میاں نوازشریف کے بقول انہیں ملک واپس نہ آنے اور لندن ہی میں قیام کرنے کے پیغامات بھیجے گئے اور انہیں پاکستان میں قیدوبند کی سختیوں سے بھی ڈرایا گیا مگر انہوں نے ملک اور عوام کی خدمت کی خاطر خود کو گرفتاری اور قیدوبند کی سزا بھگتنے کیلئے پیش کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے لندن سے ابوظہبی روانہ ہوتے وقت بھی یہی عزم ظاہر کیا کہ انہوں نے ہر صورت ملک واپس جانا اور وہاں ملک اور عوام کی خاطر جیل کاٹنی ہے۔ یہی عزم لے کر وہ اور مریم نواز لندن سے شیڈول کے مطابق ابوظہبی پہنچے جہاں انہیں منسلکہ پرواز کے ذریعے لاہور آنا تھا مگر ابوظہبی ایئرپورٹ پر ہی انہیں عملاً حراست میں لے لیا گیا اور وہاں موجود سکیورٹی حکام اور اہلکاروں کی جانب سے انکی نقل و حرکت پر بھی پابندی لگا دی گئی اور دانستہ طور پر انکی منسلکہ پرواز کی روانگی میں تاخیر کی گئی۔ نوازشریف نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح آمروں کے ساتھ مفاہمت کرنے کے بجائے انکی قید قبول کرکے قومی تاریخ میں امر ہونے کی روایت کو آگے بڑھایا اور مدبر قومی لیڈر کی حیثیت سے اپنے قدکاٹھ میں مزید اضافہ کیا۔ لندن سے انکے ساتھ آنیوالی ملکی اور غیرملکی میڈیا ٹیم بھی آج میاں نوازشریف کے عزم کی گواہی دے رہی ہے جس نے جہاز کی لینڈنگ کے بعد لاہور ایئرپورٹ کو گھیرے میں لیتے ہوئے رینجرز اور دوسری سکیورٹی فورسز کے کمانڈوز کے دستوں کی مسلح نقل و حرکت اور جہاز کے نہتے مسافروں کے ساتھ بدتمیزی اور درشتی سے پیش آنے کے مناظر کا مشاہدہ بھی کیا اور انہیں کیمروں کی آنکھ میں محفوظ بھی کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کمانڈوز نے جہاز کے اندر گھس کر میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز کو حراست میں لینے کی کوشش کی جس پر جہاز کے دوسرے عام مسافروں نے بھی سخت احتجاج کیا اور ایک بزرگ مسافر نے ان کمانڈوز کو کھری کھری سنائیں۔ ان کمانڈوز نے جہاز سے نیچے اترتے وقت بھی میاں نوازشریف اور مریم نواز کو زبردستی پولیس وین میں بٹھانے کی کوشش کی جس پر انہوں نے سخت احتجاج کیا اور پھر گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے پیدل چل کر ٹرمینل تک آئے‘ انہیں وہیں سے ایک ڈ طیارے کے ذریعے اسلام آباد روانہ کردیا گیا اور جہاز کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہی انہیں پولیس کی بکتربند گاڑیوں میں بٹھادیا گیا اور پھر پولیس‘ رینجرز کے کمانڈوز کی بھاری نفری کے ساتھ ملک کے تین بار منتخب ہونیوالے وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف اور انکی نہتی بیٹی کو خوف و ہراس کی فضا میں پراسرار طریقے سے ایئرپورٹ سے اسلام آباد کی مختلف شاہراہوں پر گھماتے ہوئے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا جبکہ میڈیا پر انہیں سہالہ جیل منتقل کئے جانے کی خبریں چلتی رہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ پورے ملک میں افراتفری اور خوف و ہراس کی فضا ان معتبر قومی سیاسی قائدین کیلئے پیدا کی گئی جو احتساب عدالت کی دی گئی ناروا قید کی سزا کاٹنے کیلئے رضاکارانہ طور پر خود لندن سے ملک واپس آرہے تھے۔ اگر انکی گرفتاری کیلئے کمانڈوز کے لشکروں پر مبنی یہ سارا کروفر والا اہتمام نہ بھی کیا جاتا تو وہ کہیں فرار ہو کر جانے کی نیت سے نہیں آرہے تھے۔ نیب کے محض دو اہلکار بھجوا کر بھی انہیں حراست میں لیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) اور قوم کے قائد ہونے کے ناطے انکے پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں کو میاں نوازشریف کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ آنے کی اجازت دے دی جاتی تو اس سے بھی کوئی قیامت نہ ٹوٹ پڑتی جبکہ وہ پارٹی کارکنوں سے خطاب کرکے بھی انہیں پرامن رہ کر ملک کی خدمت جاری رکھنے کی ہی اپیل کرتے۔ اسکے برعکس نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کے ایماءپر پولیس اور انتظامیہ نے پورے شہر میں خوف و دہشت کی جو فضا قائم کی وہ ریاستی دہشت گردی کے سیاہ ترین باب کی صورت میں تاریخ میں محفوظ ہو گئی ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے مخالف سیاست دانوں نے بھی نگران حکمرانوں کے ماورائے آئین اٹھائے گئے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیرضروری اور نقل و حمل کی آزادی سے متعلق شہریوں کے آئینی حقوق غصب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی کٹڑ مخالف پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی گزشتہ روز ”وقت نیوز“ کی خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگی کارکنوں کی گرفتاریوں اور انہیں میاں نوازشریف کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ جانے سے روکنے اور شہر میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے متعلق نگران صوبائی حکومت کے اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ شہریوں کو نقل و حرکت اور اظہار رائے کے آئینی حق سے روکنا ہی بدترین آمریت ہوتی ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی لیگی کارکنوں کی گرفتاریوں اور انہیں پرامن احتجاج سے روکنے کے اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ نگران حکومت کی یہ کارروائیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے بجا طور پر یہ باور کرایا کہ انتظامیہ کا رویہ لاڈلے کے ساتھ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مختلف ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹویٹر پیغام میں بھی نگران حکومت کے اس طرز عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے چیف الیکشن کمشنر کو فون کرکے ان سے نگران حکومت کی پیدا کردہ صورتحال کا نوٹس لینے کا تقاضا کیا۔ اسی طرح گزشتہ روز سینٹ کے اجلاس میں بھی پیپلزپارٹی کے سینیٹروں نے نگران حکومت کی پیدا کردہ صورتحال پر احتجاج کیا اور سابق چیئرمین سینٹ رضاربانی نے باور کرایا کہ ایک جماعت کیخلاف کارروائی اور دوسری کو آگے لانے کی کوشش الیکشن کو متنازعہ بنا دیگی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی قید بامشقت اور بھاری جرمانہ کی سزا بھگتنے کیلئے میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز اب اڈیالہ جیل میں قید ہیں‘ نوازشریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر پہلے ہی رضاکارانہ طور پر گرفتاری دے چکے ہیں اور اڈیالہ جیل میں ہیں۔ انہیں اپنی سزاﺅں کیخلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کرنے کا قانونی حق حاصل ہے جو وہ اپنے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے بروئے کار لا بھی رہے ہیں‘ ان اپیلوں پر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے دادرسی ملنے کی صورت میں وہ سرخرو ہو کر دوبارہ عوام کے پاس آجائینگے۔ میاں نوازشریف کا سیاسی بیانیہ آج بذاتِ خود اتنی تقویت حاصل کرچکا ہے کہ عام انتخابات کیلئے دو ہفتے بعد منعقد ہونیوالا پولنگ مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ مسند اقتدار پر لانے کی راہ ہموار کر سکتا ہے جبکہ انکے مخالفین نے سیاسی رواداری اور اقدار کا جس طرح جنازہ نکالا ہے اور بالخصوص نگران حکمرانوں نے انتظامی ریاستی مشینری کے زور پر جس انداز میں مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کو دیوار سے لگانے اور انتخابی سیاسی میدان سے آﺅٹ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اسکی تلخیاں یقیناً تادیر محسوس کی جاتی رہیں گی۔ اگر آزادانہ‘ منصفانہ‘ غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے تشکیل دی گئی نگران حکومتوں کی جانب سے کسی ایک جماعت کے ساتھ امتیازی سلوک اور اسکے مدمقابل جماعت کے حق میں جانبداری کی ایسی شرمناک داستانیں رقم کی جائیں گی تو انکے ماتحت ہونیوالے انتخابات کے نتائج کون تسلیم کریگا۔ گزشتہ روز پنجاب کی نگران حکومت کی جانب سے میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ملک واپسی پر مسلم لیگ (ن) کے قائدین‘ عہدیداروں اور کارکنوں کے ساتھ شرفِ انسانیت سے عاری جو سلوک روا رکھا گیا اور جس طرح شہری آزادیاں سلب کی گئیں اس سے نگران سیٹ اپ کے اپنے ایجنڈے کی ہی قلعی کھلی ہے جو سسٹم کے تسلسل‘ بقاءاور استحکام کی ضد ہی نظر آتا ہے۔