کلمہ حق توبہ ہے کہ ہم نے جناب مجید نظامی کی زندگی میں انکی قدر اپنے والدین کی طرح کی جس کے وہ حقدار تھے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ایک دن اچانک وہ ہم سے جدا ہو جائینگے وجہ محض اتنی ہوتی ہے کہ ہم آج کا کام کل پر چھوڑ دینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ جناب مجید نظامی میں جو خصوصیات تھیں وہ شاید لاکھوں کروڑوں انسانوں میں میں نے نہیں دیکھیں‘ خصوصاً عفو و در گزر‘ تحمل مزاجی‘ لڑائی جھگڑوں سے اجتناب‘ ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں چونکہ نظامی صاحبان سے میرے بزرگوں کی خط و کتابت نوائے وقت کے اجراء سے بھی پہلے کی تھی‘ جس کا (ثبوت) ابھی بھی میرے پاس محفوظ ہے ہمیں معلوم ہے۔ عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرحوم میں لوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ایک دفعہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد میں ملنے انکے دفتر گیا۔ جسٹس فرخ بھی اس وقت حسب روایت بصورت ہمزاد موجود تھے‘ نظامی صاحب نے فرمایا میرانی صاحب اس وقت رمیزہ سترہ سال کی ہے اور اس نے سترہ عمرے ادا کئے ہیں۔ میں ہر سال اسے عمرے پہ ساتھ لے جاتا ہوں‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محترمہ رمیزہ نظامی کی تربیت اور غلامی رسولؐ کیلئے نظامی صاحب نے عملاً بھرپور کوشش کی تھی حضور کا فرمان ہے کہ اپنی اولاد کو آداب سکھانا صدقے سے بہتر ہے (ترمذی) اسی طرح تعلیم و تربیت کا ذکر ہے مرحوم اپنے ملازمین کو بھی اس طرح سمجھاتے تھے جیسے ایک شفیق باپ اولاد کو سکھاتا ہے خصوصاً جب کوئی ملازم حکومتی عتاب کا شکار ہو جاتا تو وہ اسکی ڈھال بنکر کھڑے ہو جاتے اور ممکن حد تک وہ اسکی مدد کرتے اور مشورے دیتے۔ایک دفعہ کسی ملازم نے نظامی صاحب کو لاڈ پیار میں بصورت تحریر انتہائی سخت الفاظ میں شکوہ شکایت کی اور نوائے وقت کو بھی خیر باد کہہ دیا مگر کچھ دن بعد میں نے جب انہیں دوبارہ نوائے وقت میں دیکھا تو میں نے ان سے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے نظامی صاحب سے معذرت کی اور نظامی صاحب نے درگزر اور تحمل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے معاف کر دیا اکثر صورتوں میں ملازمین کی بوقت ضرورت مدد بھی کر دیا کرتے تھے حتیٰ کہ مرحوم ملازمین کی بیوہ یا بچوں کی بھی تعلیمی وظائف یا بیوہ کیلئے ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم بھجوا دیا کرتے تھے۔ قلندرانہ مزاح رکھنے والے مرحوم و مغفور ہمارے ملک کے نامور صحافیوں اور لکھاریوں کے حقیقتاً استاد گرامی تھی۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے تقریباً تمام بڑے بڑے صاحبان قلم کے نام بتائے جو کسی نہ کسی حوالے سے ان سے منسلک رہتے ہیں میں نے محمود شام صاحب کا پوچھا تو بولے وہ بھی‘ انہوں نے لکھنے کی ابتدا ’’پھول ڈائجسٹ‘‘ سے کی تھی۔ عطاء الحق قاسمی ہمیشہ کہتے ہیں کہ میں نے کالم ان سے لکھنا سیکھا اور وہ مختصر الفاظ میں خوبصورت اضافہ کر دیتے‘ مگر فتنے کے اس دور میں نوائے وقت سے نکلنے والے کو یہ نہیں پتہ کہ میں کیوں نکالا گیا ہوں اور نہ نکلوانے والے کو پتہ ہے میں نے کیوں نکلوایا ہے۔ عطاء الرحمن صاحب (روزنامہ نئی بات) نے ہمیشہ نظامی صاحب کو یاد رکھا مگر نظامی صاحب نے بھی کمال شفقت کا مظاہرہ کیا وہ نئی بات کی ہر تقریب پر شرکت کرتے چونکہ وہ وقت کے بہت پابند تھے وہ ہمیشہ وقت پر پہنچتے تو ایسے لگتا وہ وقت سے پہلے پہنچ گئے ہیں اسی طرح مجیب الرحمن شامی صاحب بھی انکے مداح رہتے نظامی صاحب ہمیشہ نوائے وقت کی تقریبات میں انہیں بلاتے اور اچھے الفاظ میں انہیں یاد کرتے۔
ڈاکٹر اجمل نیازی اور مجھے یہ اعزاز حاصل رہا کہ انہوں نے ہمیں کالم گھر بھیجنے کی خصوصی اجازت دی تھی مجھے انکے گھر کالم بھیجنے میں یہ لالچ اور طمع ہوتی تھی کہ اس طرح اکثر میرا کالم NEWS PAGES میں بھی چھپ جاتا‘ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کیساتھ انکے تعلق سے سبھی واقف ہیں مگر وہ ہمیشہ انکے ہر اقدام پہ بے لوث ہو کر بے لاگ تبصرہ کرتے اور تعریف والے کام کی تعریف اور تنقید والے کام پہ تنقید بھی کرتے ایک دفعہ انہوں نے خوشگوار موڈ پہ ان پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے بہت محظوظ کیا تھا‘ اس وقت بھی جناب آفتاب فرخ موجود تھے۔ ہر حکمران خصوصاً جنرل مشرف کے کشمیر مخالف اقدام کی وہ کھل کر مخالفت کرتے جسکی تصدیق اب محترم علی گیلانی نے بھی کی ہے کہ مشرف نے آگرہ سمٹ پر مجھے بلایا تھا اور دباؤ ڈالا کہ وہ انکے چار نکاتی فارمولے پہ عمل کریں مگر انہوں نے اس کا دباؤ مسترد کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کانفرنس کے کچھ لوگ ’’را‘‘ سے ملے ہوئے تھے۔ مشرف کس سے ملے ہوئے تھے اور مشرف کی لسانی جماعت کس سے ملی ہوئی تھی۔ اسے اللہ کے علاوہ عوام بھی جانتے تھے۔ مجید نظامی صاحب کے ساتھ ذاتی طور پر بھی مشرف نے انہیں خاص مقصد براری کیلئے سعودی عرب بھیجا تھا بعدازاں طوطا چشم بنکر یکسر مکر گئے مگر قلندرانہ للکار بصورت مجید نظامی نے اسکا محاسبہ مقابلے کی طرح جاری رکھا بقول اقبال
توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا
ہے تجھ میں مکر جانیکی جرات تو مکر جا
جناب نظامی کی خدمات‘ خصوصیات اور قائد و اقبال کے پاکستان کے خوابوں کا یہ کالم احاطہ نہیں کر سکتے اس کیلئے کتابوں کو تحریر کرنا ہو گا‘ میں روزانہ والدین کی بخشش کی دعا کیساتھ مرحوم کی الحمد للہ بخشش اور بلندی درجات کی دعا بھی مانگتا ہوں کیونکہ ایک مسلمان دوسرے سچے مسلمان کیلئے یہی کر سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38