روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات میں پاک، بھارت تعلقات خطے کی صورتحال مذاکرات کی بحالی کنٹرول لائن پر کشیدگی سمیت تمام اہم تصفیہ امورپر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دریں اثناء پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ روس میں وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خدشات پس پشت ڈال دیئے اور انہوں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ مودی نے نواز شریف کی پاکستان آنے کی دعوت تو قبول کرلی ہے لیکن تجزیہ نگاروںکا کہنا ہے کہ مودی کے پاکستان آنے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔
قارئین کرام! بھارتی حکمرانوں اور انتہا پسند سیاسی جماعتوں نے آج تک پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ آج بھی اکھنڈ بھارت کے نعرے لگا رہی ہیں اور پاکستان کے اندرونی معاملات بالخصوص بلوچستان اور فاٹا میں بھارتی دہشتگردوں کی سرگرمیوں کا مقصد پاکستان کے اندرونی محاذ کو کمزور کرنا ہے اس مقصد کیلئے افغانستان میں پاکستان سے ملحقہ افغان شہروں میں 14بھارتی قونصل خانے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان مین داخل کر رہے ہیں۔ افغانستان جیسے پسماندہ اورخانہ جنگی کے شکار ملک میں اتنی تعداد میں بھارتی قونصل خانوں کا قیام ایک مضحکہ خیز امر ہے اور اسکا بنیادی مقصد پاکستان میں مداخلت کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ 68سال سے جاری پاک بھارت کشیدگی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ یہ حقیقت کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتی کہ کشمیریوں کی بھاری اکثریت اقوام متحدہ میں بھارتی حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں اور عالمی ادارے کی قراردادوں کیمطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کیلئے استصواب رائے چاہتی ہے محض پاکستان اور بھارت اس معاملے کو اپنی صوابدید کیمطابق طے نہیں کرسکتے۔ ایک کروڑ انسانوں پر مشتمل کشمیریوں کے موقف اور مفادات کا اس عمل میں شامل رکھا جانا لازمی ہے۔ اسکے بغیر نہ کشمیرکا مسئلہ اطمینان بخش اور منصفانہ طور پر حل ہوسکتا ہے ‘ نہ پاک بھارت کشیدگی ختم ہوسکتی ہے۔
بھارت پاکستان کی جانب سے آنیوالے پانی کو مسلسل روک رہا ہے۔ یہ اسکی پاکستان دشمنی کی روشن دلیل ہے جس کی رو سے اس نے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر شروع کر رکھی ہے جس کے خلاف پاکستان عالمی فورم سے رجوع کر چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے عملی طور پر جس طرح کے خبث باطن کا اظہار سامنے آرہا ہے اس کی رو سے تو بھارت نہ تو امن کا خواہاں ہے اور نہ ہی اچھے ہمسایوں کی اچھے طرح رہنا چاہتا ہے بلکہ بھارت مکارانہ طریقے سے پاکستان کو دوستی کے جھانسے میں رکھ کر پاکستان کو زمینی زرعی اور معاشی طور پر مفلوج کرنے کی گہری سازش میں مصروف ہے جس کا یقیناً پاکستانی قوم کو ادراک تو ہے لیکن اس کے باوجود ہماری حکومتیں نجانے کیوں مصلحت کا شکار ہو جاتی ہیں اور سامنے نظر آنیوالی اور واضح دشمنی کے اسباب کو نظر انداز کرکے بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے پرمصر ہیں۔ اچھی ہمسائیگی اور دوستی بلاشبہ دو طرفہ ضرورت ہے لیکن برصغیر میں بھارت کی بالا دستی کا خواہ اور دوسرے ممالک کواپنے دست نگر دیکھنے کی پالیسی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ بھارت کے ارد گرد واقع چھوٹے ممالک کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
ہماری ہر حکومت مسئلہ کشمیر پر بھارت سے سنجیدہ مذاکرات کی طرف نہیں آتی بلکہ اصل اور بنیادی مسئلے کو چھوڑ کر تجارت بڑھانے‘ مواصلات کے شعبے میں باہمی تعاون اور اس طرح کے دیگر سطحی اقدامات کو کافی سمجھتی ہے جسے وقت گزاری کیساتھ ساتھ اپنے عوام کو دھوکہ دینے اور کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد آزادی کی ناقدری بلکہ عملی طور پر اسکی نفی کے مترادف ہے۔
پاکستان کی تمام حکومتیں بھارت کے ساتھ مذاکرات کی ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ چکی ہیں لیکن وہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پائیدار حل پر کبھی آمادہ نہیں ہوا۔ وہ تو ہر بار کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیکر اڑ جاتا ہے کہ مذاکرات کرنے ہیں تو اسی بنیاد پر کئے جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف کا یہ کہنا اہل وطن اور خود کشمیریوں کیلئے حیرت و استعجاب کا باعث بنا ہے کہ ہم بھارت کی ’’ہرتجویز‘‘ پر غور کرنے کیلئے تیار ہیں اور ہمیں خطے میں آباد ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کیلئے ایک نئے عہد کا آغاز کرنا چاہیئے۔ کشمیر کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت مل کے طے کریں کہ اس ریاست پر کس کا قبضہ ہونا چاہیئے یا اسے دونوں ممالک آپس میں تقسیم کرلیں۔ اصل میں اہل کشمیر کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان کی مرضی و منشاء کے بغیر کوئی فیصلہ ان پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا بہترین حل اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی صورت میں موجود ہے کہ کشمیرمیں آزادانہ رائے شماری کے ذریعے وہاں رہنے والوں سے یہ فیصلہ لے لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ بلاشبہ اس تنازعے کا خطے کے امن و استحکام سے گہرا تعلق ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38