بدھ ‘27 ؍ رمضان المبارک ‘ 1436ھ ‘ 15 ؍ جولائی 2015ء
زرداری قائد اور بھائی ہیں۔ شادی کی افواہیں سازش کے تحت پھیلائی گئیں۔ تنویر زمانی
مغل دور میں ملکہ ہند کو مریم زمانی کا خطاب دیا جاتا تھا شہنشاہ ہند جب تک زندہ ہو ظل سبحانی اور پس مرگ خلد آشیانی ہو جاتے تھے۔ اب یہ موصوفہ تنویر زمانی بھی لگتا ہے زمانہ شناس خاتون ہیں۔ انہیں میڈیا پر آنے کا اور خبروں میں نمایاں ہونے کا ہنر جس نے بھی سکھایا وہ کامیاب رہا۔ اگر یہ اہلیت ان میں پہلے سے ہی قدرتی طور پر موجود تھی تو اس میں بھی موصوفہ نے کمال کر دکھایا۔
رہی بات افواہیں پھیلانے کی‘ سازش کرنے والوں کی تو یہ کوئی عقل نہیں آنکھوں سے بھی اندھا ہی ہو گا جو چار بچوں کی ماں اور صاحب سلامت شوہر کے ہوتے ہوئے کسی خاتون کو آصف علی زرداری کی اہلیہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کریگا۔ ہاں اگر موصوفہ خود معاملہ اچھالنے میڈیا پر انٹرویو دینے کے شوق میں کو بہ کو جا بجا افواہوں کو حقیقت ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کرتیں تو اس میں سازش کسی اور کی نہیں ان کی اپنی ثابت ہوتی ۔
یہ تو شکر ہے جلد ہی بھانڈا پھوٹ گیا شاید مقصد حل ہو گیا ہو گا جس کیلئے یہ کھیل رچایا گیا۔ کیونکہ اس پتلی تماشہ کی وجہ سے آصف زرداری کی فوج کے خلاف دھواں دھار تقریر اسکے بعد صفائیاں اور بعد ازاں بیرون ملک ہمشیرہ کے ہمراہ روانگی کا اصل موضوع کچھ عرصہ عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھا گیا۔ موصوفہ اس مقصد میں کامیاب بھی رہیں۔ اب دیکھنا ہے آصف زرداری صاحب موصوفہ کو کیا صلہ دیتے ہیں۔ مشہور ہے کہ وہ اپنے مشکل وقت کے ساتھیوں کو سونے میں تولا کرتے ہیں… یا ان کا منہ موتیوں سے بھر دیتے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…
پنجاب حکومت کا آبادی کنٹرول کرنے کیلئے علماء کو بھرتی کرنے کا فیصلہ
جو کام بہت پہلے کرنا چاہیے وہ ہماری حکومتوں کو بعد میں یاد آتے ہیں۔ بہبود آبادی پروگرام جسے پہلے خاندانی منصوبہ بندی کا نام دیا گیا تھا جب سے شروع ہوا ہے علماء کرام کی طرف سے بڑی شدو مد سے اس کی مخالفت کی گئی اور اسے امت مسلمہ کی آبادی کم کرنے کی سازش کہا گیا۔ حکومت نے انہیں اس پروگرام کی افادیت پر قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر یہ بقول شخصے ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والی بات ثابت ہوئی۔اب ’’تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا‘‘ والا فارمولا استعمال کرتے ہوئے حکومت نے بہبود آبادی کے نام پر تیزی سے بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے انہی کی مدد حاصل کرنے کا پلان بنایا ہے۔
گویا اب ہیلتھ وزیٹر کی طرح مولوی حضرات بھی سوشل موبلائزر محکمہ بہبود آبادی شامل ہونگے بڑے بڑے اسلامی ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے جامع منصوبہ بندی کی گئی کہیں سے بھی مخالفانہ آواز بلند نہیں ہوئی۔مگر ہمارے ہاں لائوڈ سپیکر کی مہربانی سے ہمارے مولوی حضرات نے بہبود آبادی کیخلاف ایسا محاذ گرم کیا کہ لوگ اسکے نام سے ہی چڑنے لگے۔
حالانکہ اکثر لوگوں کے گھریلو حالات کثرت اولاد کی وجہ سے پہلے ہی انہیں نک چڑھا بنا دیتے ہیں مگر اسکے باوجود انہیں عقل نہیں آئی۔ اسلام میں اولاد کی بہترین پرورش کا حکم ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب اولاد بھی تھوڑی ہو۔ تھوڑے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت ہو سکتی ہے۔ بچوں کی فوج ہو تو کیسی تربیت کیسی تعلیم جب بچوں کو ہم اچھا ماحول اچھا لباس اور اچھی تعلیم نہیں دے سکتے تو انہیں گلیوں میں آوارہ پھرنے کیلئے پرانے ادھورے لباس اور ننگے پائوں گندے اور غلط ماحول میں خراب ہونے کیلئے کیوں چھوڑا جائے۔ امید ہے علماء کرام اس بارے میں شعور بیدار کریں گے۔ بچے اچھے ہونا ضروری ہیں زیادہ ہونا ضروری نہیں…
…٭…٭…٭…٭…
ناکام مودی سرکار کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ لالو پرشاد یادیو نے بہار سے تحریک شروع کر دی۔
لیجئے انتہا پسند مودی حکومت کیخلاف بھارت کی ریاست بہار سے انتہا پسندی کی چھائی خزاں کے خلاف بہار کی امید پیدا ہوئی ہے۔ بہار کے سدا بہار زندہ دل سیاستدان لالو پرشاد یادو بھارت والے ریلوے وزیر اور بطور وزیر اعلیٰ جن کی خدمت کے ہم معترف ہیں کہ بہار میں آج بھی…؎
جب تک سموسے میں آلو رہے گا
بہار میں اپنا لالو رہے گا
کے نعرے لگتے ہیں۔ کیونکہ آلو اور سموسے کا ساتھ دائمی ہے۔ اس طرح بھارتی سیاست میں لالو پرشاد نے اگر واقعی مودی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تو ان کا نام بھی دائمی حیثیت اختیار کرے گا۔ لالو پرشاد اب سنجیدہ رہنما بننے چلے ہیں تو دیکھنا ہے نریندر مودی اور ان کے حامی انتہا پسند ہندو اپنے اس ہندو بھائی کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ یہ گجرات کے مسلمان‘ گودھرا ٹرین کے مسافر یا ایودھیا کی بابری مسجد نہیں جنہیں آسانی سے قتل کیا گیا جلایا گیا اور ڈھایا گیا۔
یہ خود ہندو سماج میں رہنے والے ان ہندوئوں کی آواز ہے جو ایک ظالم اور انتہا پسند حکومت کے خلاف اٹھی ہے اسے ان کروڑوں خاموش ہندوستانیوں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے جو کسی بھی تخت کا تختہ کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭