نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے فضائی کے بعد زمینی حملے ‘ اقوام متحدہ کی بے بسی اور مسلم دنیا کی بے حسی…امتِ مسلمہ خواب غفلت سے کب بیدار ہوگی؟
عالمی دبائو مسترد کرتے ہوئے اسرائیلی فوج گزشتہ روز غزہ میں داخل ہوگئی اور اس نے زمینی کارروائی شروع کر دی۔ اسرائیلی فوج کے تازہ فضائی حملوں میں 20 فلسطینی شہید ہو گئے جبکہ غزہ پولیس چیف سمیت بیسیوں زخمی ہوئے۔ سکیورٹی ہیڈکوارٹر حماس رہنما کے گھر‘ فلاحی ادارے کے مرکز اور دو مساجد پر بھی بمباری کی گئی۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ سات روز سے نہتے‘ بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کیخلاف بمباری کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک معصوم بچوں اور خواتین سمیت 170 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اب اسرائیلی فوجوں نے زمینی کارروائی بھی شروع کر دی ہے جو فلسطینیوں کی بڑی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوجوں نے فلسطینی شہروں کی طرف پیش قدمی اور لوٹ مار شروع کر دی ہے۔ مشرقی غزہ التفاح کالونی میں موجود غزہ پولیس چیف تیسیراالبطش کی رہائش گاہ پر بھی بمباری کی گئی جس کے نتیجہ میں متعدد خواتین اور بچے شہید ہوئے جبکہ پولیس چیف کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ اس کالونی کی جامع مسجد الحرمین پر بھی بمباری کی گئی جس سے مسجد شہید ہو گئی۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ قابض فوج نے جامع مسجد پر اس وقت بمباری کی جب نماز تراویح جاری تھی۔
نہتے فلسطینیوں کیخلاف اسرائیلی افواج کے جاری ان مظالم پر دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے مگر اسرائیلی حکومت نہ صرف اس احتجاج کو خاطر میں نہیں لارہی بلکہ فلسطینیوں پر یلغار کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی مذمت کرے اور فلسطینیوں کے بین الاقوامی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ فلسطینی مندوب کے بقول غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ سکیورٹی کونسل میں نئی قرارداد پیش کرینگے جبکہ سعودی مندوب نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل قومی برادری کی کال پر کان دھرے گا۔ انکے بقول سکیورٹی کونسل کا بیان اسلامی ممالک کی تنظیم کی امنگوں کا آئینہ دار نہیں جبکہ اسرائیل نے سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد کا احترام نہ کیا تو ہم عالمی فورم سے زیادہ سخت اقدام کی سفارش کرینگے۔ دوسری جانب فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کو خط لکھ کر فلسطین کو عالمی تحفظ میں لینے کا تقاضا کیا ہے۔ اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں سے فلسطینی باشندے زندہ درگور ہو رہے ہیں‘ وہ پل پل جیتے‘ پل پل مرتے ہیں جبکہ اب ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں نے نقل مکانی کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو فون کرکے ان سے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور جنگ بندی کیلئے امریکی تعاون کی پیشکش کی ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بمباری میں ہونیوالی ہلاکتوں کا حماس کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اسکے برعکس ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل پر فلسطین کیخلاف اسلحہ کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے اور فلسطین میں جنگی جرائم کی غیرجانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ 8؍جولائی سے اب تک اسرائیلی حملوں میں ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر عام شہریوں کے گھروں پر حملہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
امریکی سرپرستی میں تشکیل پانے والی ناجائز ریاست اسرائیل کا تشخص ایک عالمی غنڈے والا بن چکا ہے‘ جو گزشتہ چھ دہائیوں سے معصوم و بے گناہ فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ بظاہر تو اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کرتا ہے مگر فی الحقیقت اسرائیل امریکی سرپرستی میں ہی فلسطینیوں کیخلاف اپنی جنگی جنونیت کو فروغ دے رہا ہے جبکہ اسرائیلی فوجوں کی جانب سے فلسطینیوں کیخلاف استعمال کیا جانیوالا اسلحہ بھی امریکی ساختہ ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ عالمی تھانیدار بن کر اسرائیلی فوجوں سے فلسطینیوں کا قتل عام بھی کراتا ہے اور پھر ان کارروائیوں پر جھوٹ موٹ اسرائیل کی مذمت بھی کرتا ہے جس سے امریکی منافقانہ پالیسیوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہو اور امریکی وزیر خارجہ کی سطح پر اسرائیل کی مذمت کی جا رہی ہو‘ اسکے باوجود اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھے تو اس سے سیدھا سیدھا یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسرائیل درحقیقت امریکی کٹھ پتلی کے طور پر اسکے احکام کی تعمیل کررہا ہے اس لئے امریکہ کی جانب سے اس کیلئے نرم گوشہ تو رکھا جا سکتا ہے مگر اسکی گوشمالی نہیں کی جا سکتی کیونکہ مسلم امہ کو دبانے کیلئے اسرائیل امریکی ایجنڈے پر ہی عمل پیرا ہے‘ چنانچہ وہ اس کیخلاف حقیقی پابندیاں کیوں لگائے گا۔ امریکہ نے تو درحقیقت دنیا کو تسلی دینے اور اپنی غیرجانبداری ظاہر کرنے کیلئے اسرائیل کی مذمت کی ہے ورنہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی فوجوں کی جانب سے معصوم و بے گناہ فلسطینی بچوں کی سفاکی کے ساتھ گردنیں کاٹی جا رہی ہیں اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری اسرائیلی وزیراعظم کو فون کرکے اسرائیلی مظالم پر محض رسمی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ بدقسمتی سے مسلم امہ بھی آج اسرائیلی مظالم پر محض خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے اور اسرائیل کی ان ظالمانہ کارروائیوں کیخلاف مسلم ممالک اور انکی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ نے بھی منہ میں گھنگنیاں ڈال رکھی ہیں جنہوں نے اسرائیل کی مذمت کیلئے روٹین کی قرارداد بھی اقوام متحدہ میں لانا ضروری نہیں سمجھا۔ اگر مسلم امہ کو اندر سے چھری نہ ماری جائے‘ اسکے نمائندہ اداروں او آئی سی اور عرب لیگ کی محض تشکیل پر ہی صاد نہ کرلیا جائے بلکہ انہیں فعال بھی کیا جائے اور مسلم ریاستیں امریکہ کے ساتھ روابط والی منافقانہ پالیسیوں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسرائیل کا دماغ ٹھکانے پر نہ آئے۔ حد تو یہ ہے کہ بے گناہ فلسطینی رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیلی مظالم بھگت رہے ہیں اور مسلم دنیا کو فیفا ورلڈ فٹ بال کپ دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ملی۔ اگرچہ گزشتہ روز عرب ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کا جائزہ لیا گیا ہے مگر اسرائیلی مظالم کا اسی کے لہجے میں جواب دینے اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کی مسلم دنیا میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی دو روز قبل اسرائیلی مظالم کیخلاف رسمی ہلکا پھلکا احتجاج کیا جبکہ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز عرب لیگ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ اسے اسرائیلی بمباری رکوانے کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب امت واحدہ کی حیثیت سے ہم خود ہی اپنے آپ کو منوانے اور باہمی انتشار اور تفرقہ بازی کے آگے بند باندھنے کیلئے کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں تو پھر انتشار ِامت کا باعث بننے والے دشمن کو مارنے کیلئے اب ابابیلیں تو آسمان سے نہیں اتریں گی۔ میاں نوازشریف نے تو پھر بھی غزہ میں اسرائیلی حملوں کیخلاف مذمتی بیان جاری کر دیا جبکہ مسلم ممالک کی اکثریت نے اسرائیل کی مذمت کے بجائے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا حالانکہ آج امریکہ کے اس بالشتیے کے ہاتھ نہیں روکے جائینگے تو وہ امریکی شہ پر ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک پر چڑھائی کرتا رہے گا۔ اگر اسرائیلی مظالم رکوانے میں آج اقوام متحدہ بھی بے بس ہے اور اسلامی کانفرنس اور عرب لیگ محض نمائشی ادارے بن کر رہ گئے ہیں تو پھر مسلم امہ کیخلاف اپنے جنونی صیہونی عزائم کا سلسلہ دراز کرنیوالے اسرائیل کے ہاتھ کون روکے گا۔ اسلام دشمن قوتیں تو باہم متحد ہو کر مسلم دنیا کیخلاف اپنی سازشوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا رہی ہیں مگر مسلم دنیا تفرقہ بازی میں پڑ کر اور اپنے اپنے مفادات کی اسیر ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی اپنی تباہی کا انتظار کر رہی ہے۔اگر مسلم دنیا آج خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئی تو طاغوتی طاقتیں ایک ایک کرکے مسلم ممالک کا تورابورا بناتی رہیں گی۔ معصوم و بے گناہ فلسطینیوں کا خون ناحق خدا کے حضور تو ضرور انصاف پائے گا مگر وسائل اور طاقت و اختیار سے مالامال مسلم دنیا ان پر اٹھنے والے ناجائز ریاست اسرائیل کے ہاتھ نہیں روک پائی تو غفلتوں میں ڈوبی یہ مسلم دنیا خدا کے حضور سزاوار بھی تو ہو سکتی ہے۔ ہمیں اجتماعی اور انفرادی طور پر اپنے اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے اور خدا کے حضور اپنی غلطیوں کی معافی مانگنی چاہیے ورنہ …ع
تیری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں پر