13 جولائی 1931ءکا دن کشمیریوں کی جد وجہد آزادی میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے یہ دن ریاست کے ہر طبقہ، ہر عمر اور ہر نظریے کے لوگوں کے اندر بسا ہوا ہے۔ 13 جولائی کو کشمیری عوام یوم شہدائے کشمیر کے نام سے پکارتے ہیں اس دن کو رونما ہونے والے واقعے نے موجودہ تحریک حریت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ بیاسی سال گزرنے کے باوجود شہداءنے اپنے مقدس خون سے جو شمعیں روشن کیں تھیں آزادی کے متوالوں نے اُنہیں بجھنے نہیں دیا۔ 13 جولائی کا واقعہ کسی جادو کی چھڑی کا نتیجہ یا کسی کی کرامت نہیں ہے بلکہ اس دن کا ایک پس منظر ہے جس کو جانے بغیر اس دن کی اہمیت سمجھ نہیں آ سکتی۔ ڈوگراں حکومت نے ہمیشہ کشمیری مسلمانوں کو زر خرید غلام سمجھا ۔ ان کی منطق یہ تھی کہ مہاراجہ نے سر زمین کشمیر اور اس میں بسنے والے انسانوں کو 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض خریدا ہوا ہے۔ حکومت نے ہمیشہ غیر مسلموںبلالخصوص ہندو اور سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ ڈوگرہ شاہی میں ہندو افسران مسلمان ملازمین کی تذلیل اور اسلام کی توہین کرتے تھے۔ 29 اپریل 1931ءمیں بندش خطبہ کا سانحہ پیش آیا۔ 29 اپریل عید الاضحی تھی جموں کے مسلمان پر امن طریقے سے امام مسجد کی طرف سے دیا گیا خطبہ سن رہے تھے۔ ڈیوٹی پر مامور کھیم چند (سب انسپکٹر پولیس) نے امام صاحب کے اس خطبہ کو باغیانہ قرار دے کر امام صاحب کو خطبہ بند کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم مسلمانوں کے ایمان اور اسلام میں کھلم کھلا مداخلت تھی۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ 9 جون 1931ءکو جموں سنٹرل جیل میں واقعہ ہوا۔ جموں کے سنٹرل جیل میں لبھو رام نامی ایک پولیس سب انسپکٹر نے صبح کے وقت ایک مسلمان سپاہی فضل دین کے بستر سے پنج سورہ نکال کر زمین پر پھینک دیا اور اس پر پاو¿ں رکھ کر توہین کی یہ واقعہ قرآن کی بے حرمتی کے نام سے مشہور ہے۔اس واقع نے ریاست کے مسلمانوں کے احساسات مجروح کئے۔ مسلمان جان دے سکتا ہے مگر توہین قرآن کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس جذبہ کی بدولت مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگروں، سکھوں، ہندوو¿ں اور مرضائیوں کی ہر سازش ناکام بنا دی۔ بندش خطبہ اور توہین قرآن کے واقعات کی خبر پوری ریاست میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مسلمانوں کے جذبات بے قابو ہو گئے ان واقعات کے رونما ہونے کے باوجود ڈوگرہ حکومت نے اس جرم میں ملوث افراد کی کوئی انکوائری نہیں کی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف سخت ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔ جموں کی جامع مسجد میں چوہدری غلام عباس نے ان ہر دو واقعات کے خلاف احتجاجی تقریر کی۔ ادھر سرینگر میں شیخ محمد عبداﷲ کی راہنمائی میں چند تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں نے فتح کدل کے ”ریڈنگ روم“ کو اپنی محدود ملی سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا تھا۔ شیخ محمد عبداﷲ سکول ٹیچر تھے۔ لیکن ان ملی سرگرمیوں کے لیے سرگرم عمل تھے۔ انہوں نے جموں میں چوہدری غلام عباس سے ملاقات کرکے دونوں تنظیموں کی سرگرمیوں میں ربط و ضبط پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ 8 جون 1931ءکو جامع مسجد سرینگر میں شیخ محمد عبداﷲ اور ان کے ساتھیوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کرکے چوہدری غلام عباس اور ”ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن“ پر مکمل اعتماد کی قرار داد منظور کی۔ رئیس الاحرار نے جون 1931ءمیں ڈوگرہ حکومت کے خلاف خانقاہ معلی سرینگر کے عظیم الشان جلسہ سے خطاب کیا اور حکومت پر زبردست نکتہ چینی کی۔ اسی جلسہ میں ہی یو پی کے عبدالقدیر نامی نوجوان نے مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کی حکومت کے خلاف تندو تیز تقریر کی وہ گرفتار کر لیے گئے اور 13 جولائی 1931ءکو سرینگر سنٹرل جیل میں انتظامیہ ان کے مقدمہ کی کاروائی کرنا چاہ رہی تھی تو اُس وقت سنٹرل جیل کے باہر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان جمع ہو گئے اور انہوں نے مقدمہ کی کھلی سماعت کا اصرار کیا انتظامیہ نے اُن کی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور عوام نے وہاں پر مظاہرہ شروع کر دیا اسی دوران نماز کا وقت آ پہنچا ایک مجاہد نے دیوار پر چڑھ کر اَذان دینا شروع کی تو انتظامیہ نے اُس کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ اُس نامکمل اذان کو دوسرے مجاہد نے وہیں سے شروع کی تو اُس کو بھی شہید کر دیا گیا اسی طرح پے در پے 22 مسلمان مجاہدین کو شہید کر دیا گیا۔ آخری مجاہد نے اذان کو مکمل کرتے ہوئے جامع شہادت نوش کیا۔ اس کے ساتھ ہی ڈوگرہ حکومت نے چوہدری غلام عباس، گوہر الرحمان، مستری یعقوب علی، شیخ محمد عبداﷲ، خواجہ غلام نبی گلکار اور مولوی عبدالرحیم کو گرفتار کر لیا۔ سب سے پہلے چوہدری غلام عباس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ 13 جولائی 1931ءکا واقعہ تحریک آزادی کشمیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پورے جموں و کشمیر میں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بے شمار لوگ جیلوں میں ڈال دیئے گئے اور قتل و غارت کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
جیل سے رہائی کے بعد ریاست کی تمام تنظیموں نے چوہدری غلام عباس کی قیادت میں کابینہ کے سینئر رکن مسٹر ویکفیلڈ سے ملاقات کی اور مسلمانوں کے مطالبات پیش کئے۔
چوہدری غلام عباس نے ان سفارشات پر عمل کرنے کا پر زور مطالبہ شروع کیا۔ قائد کشمیر ریاست گیر ایجی ٹیشن کے بعد 6 مارچ 1932ءکو گرفتار کر لئے گئے اور ساڑھے تین ماہ کی اسیری کے بعد رہائی حاصل کی۔ رہائی کے فوراً بعد چوہدری غلام عباس، شیخ محمد عبداﷲ اور ان کے رفقاءکے درمیان ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کے سلسلہ میں صلاح مشورے شروع ہو گئے جس کے نتیجہ میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ ریاست کی اس ہلی سیاسی تنظیم کا پہلا سالانہ اجلاس 15، 16 اور 17 اکتوبر 1932ءکو سرینگر میں مغلیہ دور کی تاریخی پتھر مسجد میں منعقد ہوا شیخ محمد عبداﷲ اس ملی تنظیم کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024