خالد محمود ہاشمی
ہماری اکانومی کی بدقسمتی قرضوں کا بوجھ اور بجٹ کا خسارہ ہے۔ سرکاری سطح پر منافع کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ 200 سے زائد سرکاری ادارے خسارے کے ہاتھوں نڈھال ہیں۔ حکومت کے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ تو ان اداروں کا خسارہ ہے۔ 400ارب سالانہ خسارہ برداشت کرنے والی حکومت پر آفرین ہے جو اتنے بڑے خسارہ کی ذمہ داری سے سب کو بری الذمہ رکھتی ہے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو ردی اخباروں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ سرکاری اداروں کا خسارہ ہماری جی ڈی پی کے 1.5سے 2فیصد کے مساوی ہے۔ خسارے کے اسباب سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ چہار سو کرپشن کی دہائی ہے۔ بدانتظامی عدل دلچسپی کی انتہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ نے بھی ہمارے اداروں کی قلعی کھول دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خسارہ 600ارب روپے سے زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت کو تو اصلاحات کی فرصت ہی نہ ملی۔ عدلیہ کی نافرمانی میں حکومت کا سارا دورانیہ تقریباً تمام ہو گیا۔ ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ 400ارب روپے کی گردشی قرضے کی مرہون منت ہے۔ خسارہ میں نام پیدا کرنے والے اداروں میں PEPCO، پی آئی اے، پاکستان سٹیل اور ریلویز سرفہرست ہیں۔ پیپکو کا یومیہ خسارہ ایک ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 2011ءسے اب تک حکومت دو فیصد ماہانہ کے حساب سے بجلی کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے اسے Deliberate Inflation نہ کریں تو اور کیا کہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے گذشتہ 4سال میں نیشنل گرڈ میں 3500میگا واٹ بجلی شامل کی ہے۔ بجلی کی پیداوار حالیہ سیزن میں پہلی بار 14ہزار میگا واٹ تک پہنچ گئی جبکہ بجلی کی طلب کا اندازہ 18ہزار میگا واٹ تک لگایا گیا بجلی کا خسارہ کم ہو کر 4ہزار میگا واٹ رہ گیا ہے۔
پی آئی اے کا روزانہ خسارہ 7کروڑ روپے ہے۔ پچھلے تین دن میں پی آئی اے میں 2300افراد بھرتی کئے گئے۔ ریلوے کو 2011-12ءمیں 35ارب کا خسارہ ہوا۔ مسافر بیچارے ریلوے سٹیشنوں پر گاڑیوں کی راہ تکتے ہیں اور گاڑیاں ہاتھ نہیں لگتیں۔ 2008ءکے بعد سے 204میں سے 104ٹرینیں ریٹائر کر دی گئی ہیں۔ ریلوے ایک لاکھ دس ہزار ملازموں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ جبکہ 40ہزار ملازموں سے کام چل سکتا ہے۔ پنشنوں اور تنخواہوں کے لئے ریلوے کو ہر ماہ حکومت سے ڈھائی ارب روپے لینے پڑتے ہیں۔ سٹیل مل کے پاس خام مال نہیں ہے۔
ہماری اکانومی کی بدقسمتی قرضوں کا بوجھ اور بجٹ کا خسارہ ہے۔ سرکاری سطح پر منافع کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ 200 سے زائد سرکاری ادارے خسارے کے ہاتھوں نڈھال ہیں۔ حکومت کے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ تو ان اداروں کا خسارہ ہے۔ 400ارب سالانہ خسارہ برداشت کرنے والی حکومت پر آفرین ہے جو اتنے بڑے خسارہ کی ذمہ داری سے سب کو بری الذمہ رکھتی ہے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو ردی اخباروں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ سرکاری اداروں کا خسارہ ہماری جی ڈی پی کے 1.5سے 2فیصد کے مساوی ہے۔ خسارے کے اسباب سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ چہار سو کرپشن کی دہائی ہے۔ بدانتظامی عدل دلچسپی کی انتہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ نے بھی ہمارے اداروں کی قلعی کھول دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خسارہ 600ارب روپے سے زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت کو تو اصلاحات کی فرصت ہی نہ ملی۔ عدلیہ کی نافرمانی میں حکومت کا سارا دورانیہ تقریباً تمام ہو گیا۔ ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ 400ارب روپے کی گردشی قرضے کی مرہون منت ہے۔ خسارہ میں نام پیدا کرنے والے اداروں میں PEPCO، پی آئی اے، پاکستان سٹیل اور ریلویز سرفہرست ہیں۔ پیپکو کا یومیہ خسارہ ایک ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 2011ءسے اب تک حکومت دو فیصد ماہانہ کے حساب سے بجلی کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے اسے Deliberate Inflation نہ کریں تو اور کیا کہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے گذشتہ 4سال میں نیشنل گرڈ میں 3500میگا واٹ بجلی شامل کی ہے۔ بجلی کی پیداوار حالیہ سیزن میں پہلی بار 14ہزار میگا واٹ تک پہنچ گئی جبکہ بجلی کی طلب کا اندازہ 18ہزار میگا واٹ تک لگایا گیا بجلی کا خسارہ کم ہو کر 4ہزار میگا واٹ رہ گیا ہے۔
پی آئی اے کا روزانہ خسارہ 7کروڑ روپے ہے۔ پچھلے تین دن میں پی آئی اے میں 2300افراد بھرتی کئے گئے۔ ریلوے کو 2011-12ءمیں 35ارب کا خسارہ ہوا۔ مسافر بیچارے ریلوے سٹیشنوں پر گاڑیوں کی راہ تکتے ہیں اور گاڑیاں ہاتھ نہیں لگتیں۔ 2008ءکے بعد سے 204میں سے 104ٹرینیں ریٹائر کر دی گئی ہیں۔ ریلوے ایک لاکھ دس ہزار ملازموں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ جبکہ 40ہزار ملازموں سے کام چل سکتا ہے۔ پنشنوں اور تنخواہوں کے لئے ریلوے کو ہر ماہ حکومت سے ڈھائی ارب روپے لینے پڑتے ہیں۔ سٹیل مل کے پاس خام مال نہیں ہے۔