سانحہ مری :حفاظتی اقدامات ناقص کارکردگی کی نذر

معصوم فرشتے خطہ کوہسار کوہ مری گلیات سرکل بکوٹ کے پہاڑوں پر اترتے سفید روئی کے گالوں کی طرح برف باری کے مزے لینے والدین کو راضی کر کے ان کی طرف جمعہ اور ہفتہ کی تاریک راتوں میں کھنچے چلے آرہے تھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ان خوبصورت مناظر کو اپنی موت سے قبل خوفناک انداز میں دیکھ کر موت کی وادی کے مسافر بن جائیں گے۔ اسلام آباد پولیس کے آفیسر نوید اقبال اور راولپنڈی کے محمد شہزاد اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ اور مردان کے چار دوست برف کی سفید چارد میں دنیا کی عارضی زندگی سے منہ موڑ لیں گے اس سانحہ میں 23 سیاح جام شہادت نوش کرگئے ۔میرے گائوں کے شاہ صاحب تقریبا 70 سال قبل بکوٹ سے نملی میرا اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے اور جنگل میں برف باری میں انکی وفات ہوئی اس وقت سے آج تک پھر اس علاقہ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہواْ اہل پہاڑ نے سبق سیکھا اور برف باری سے قبل گلیات سرکل بکوٹ کے لوگ مکمل تیاری کے ساتھ رہتے ہیں مگر لگتا ہے کہ حکمران اور انکی انتظامیہ نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور یوں قیمتی انسانوں کو برف کے طوفان میں اکیلا چھوڑ دیا گیا اس حوالے سے ضلع ایبٹ آباد میں گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی محکمہ پولیس اور مقامی رضاکاروں کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید مسلسل سیاحوں اور مقامی لوگوں کو صورت حال سے آگاہ کرتے رہے اور پولیس کے اعلی احکام ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ایبٹ آباد ظہور بابر آفریدی ڈی آئی جی ہزارہ میروئیس اپنے جوانوں کے حوصلے بڑھانے اور سیاحوں کو گلیات آنے سے روکنے اور سہولیات فراہم کرنے میں پیش پیش رہئے ساتھ ہی گلیات کی تمام مقامی آبادی اور مذہبی جماعتوں مساجد مدارس کے رضاکاروں الحدیث اہل سنت جماعت الخدمت سب نے بڑھ چڑھ کر امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا اور گھروں مساجد ہوٹلوں کو اپنی مدد آپ کے تحت پناہ گاہیں بنا کر مدد دی مقامی صحافیوں نے سردار افتخار نصیر خان عتیق عباسی اے ڈی عباسی سمیت سب نے بروقت رپورٹنگ کرکے حالات سے آگاہی دی محکمہ موسمیات نے کئی روز قبل شدید موسم کی پیش گوئی کردی تھی سوشل میڈیا پر مقامی صحافیوں رضاکاروں نے بار بار تشہیر کی ۔ گلیات کے شدید برف باری والے علاقوں باڑہ گلی سے نتھیا گلی ڈونگا گلی توحید آباد کنڈلہ کوزہ گلی چھانگلہ گلی خیرا گلی باڑیاں خیبر پختون خواہ کی حد تک
حالات 7 جنوری رات تک کنٹرول کرلیئے گئے جبکہ دوسری طرف خطہ کوہسار کوہ مری کے 15 سے 20 کلومیٹر علاقہ باڑیاں سے لیکر کلڈنہ سنی بنک سے لیکر جھیکا گلی براستہ ٹھنڈا جنگل گھوڑا گلی لارنس کالج روڈ اور ایکسپریس وے اور کوہالہ روڈ پنجاب حکومت مری انتظامیہ سنھبال نہ سکی جہاں 30 ہزار گاڑیوں کی جگہ دو راتوں میں دولاکھ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گاڑیاں داخل ہوئیں جسکی وجہ سے تمام سڑکیں بند اور رہائش کیلیے ہوٹل فل ہوگئے کوہ مری کی جغرافیائی پوزیشن میں شدید برف باری والے علاقے کلڈنہ سنی بنک جھیکا گلی اور کلڈنہ آرمی کیمپ سے ایبٹ آباد روڈ براستہ دریا گلی سندھیاں کالی مٹی اور کلڈنہ آرمی کیمپ سے جھیکا گلی اور خاقان عباسی روڈ براستہ گھڑیال کیمپ لوہر ٹوپہ کوہالہ روڈ سہربگلہ تک خطرناک اور جنگلات والے علاقے ہیں جہاں ٹریفک جام ہونے کی صورت میں امدادی سرگرمیاں ناممکن ہوجاتی ہیں۔ مگر کوہ مری کے مقامی لوگوں نے ان بے بس مہمانوں کے لئے گھروں کے ساتھ دلوں کے دروازے کھول دیے پاکستان عوامی تحریک جماعت اسلامی اور مقامی دریا گلی کے لوگوں نے مدد کی نہ تو کسی کی عزت وقار میں حرف آیا نہ کسی کی قیمتی گاڑیاں اور اشیائ کو نقصان ہوا جبکہ دوسری طرف پاکستان کے معروف سیاحتی مقام خطہ کوہسار کوہ مری کے ایک چوٹی پر قائم مال روڈ اور گرد و نواح میں ہوٹل مافیا نے پورے خطہ کوہسار کوہ مری گلیات سرکل بکوٹ کے رہائشیوںکیلیے شرمندگی کا باعث بننتے ہیں اس علاقہ میں پاکستان بھر کے جائز کاروبار کرنے والے مہنگے داموں عمارتیں ٹھیکہ پر لیتے ہیں
اور جس عمارت کا ٹھیکہ سالانہ 20 لاکھ کا ہوتا ھے آمدن 5 لاکھ وہاں ایجنٹوں کے ذریعے مجبور سیاحوں سے پیسے پورے کیئے جاتے ہیں راقم کو اسکا ذاتی تجربہ اس وقت ہوا جب اس مافیا سے واسطہ پڑا اور لاکھوں کا نقصان کرکے واپس آئے تھے ۔حکومت وقت کو چاہیے کہ اس علاقہ میں ان ناسوروں کا قلع قمع کیا جائے تمام مالکان کو پابند کیا جائے کہ غیر مقامی باشندوں کو ان کاموں سے روکیں جو اس پاک دھرتی خطہ کوہسار کوہ مری گلیات سرکل بکوٹ کے مہمان نواز لوگوں کی بدنامی کا باعث بننتے ہیں ۔سیاحوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان حالات میں اپنی جانوں کے ساتھ بچوں کی زندگیوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور برف باری اور اسکے بعد شدید پالا (کورا)پڑتا ہے مال روڈ اور گرد و نواح میں گاڑیاں کھڑی کرکے بچوں سمیت باہر نکل کر سیر وتفریح نہ صرف انکے لئے نقصان دہ ھے ساتھ ٹریفک جام ہونے سے عوام کو بھی تکلیف ہوتی ھے ۔جو لوگ سوشل میڈیا پر مری گلیات کے عام لوگوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ کبھی ان لوگوں کے مہمان بن کر گھروں میں آئیں تو انکو معلوم ہو کہ کس قدر عظیم لوگوں کے وارث ہیں ۔