گھٹن زدہ ماحول کی زندہ شاعری
بہت دنوں بعد گوشہ دانائی کے کمرہ تنہائی کی طرف چل دئے کہ پچیس دسمبر کی شام قائد محترم کی باتیں ھوں گی لیکن وھاں تو سب دسمبر کے دکھوں کا ماتم بچھائے ھوئے تھے ہمیں دیکھتے ھی منہ پھٹ اور زبان دراز نے ہمیں آوازہ دیا تو ھم اپنی بات بھول کر دسمبر کی ستمگری بتانے لگے کہ ھمارا تو سینہ چھلنی ھے ھماری ماں بہشتن اسی ماہ جنت میں جا بسی ، پاکستان آدھا ھوا تھا ، آرمی پبلک سکول کے چراغ گل ھوئے تھے ، پروین شاکر جیسی شاعرہ کے حادثے کا المیہ ، بینظیر بھٹو کے خون ناحق کا خون بھی دسمبر کے سر ھیے ، میرا بھائی زاہد مجید ملک اسی ماہ دسمبر میں اپنے پیروں پے چل کر گو زرا سا لڑکھڑا کر ہسپتال گیا تھا مگر سفید کفن میں لپٹ کر قبر کی مٹی اوڑھ کر سو گیا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا چھوٹے قد کا بڑا انسان سلطان محمود قاضی بھی مایوسیوں ،نظراندازیوں اور خواہشوں کو حسرت بنا کر اسی دسمبر میں پنڈ ملکاں کی قبر میں جا سویا ۔ پھر استانی سیانی نے سب کے مغفرت کی دعا شروع کر دی ماحول کچھ دیر اداسی اوڑھے رھا اور پھر منہ پھٹ کی آواز ابھری کسی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ مزاحمت کیا ھیے تو جناب عرض کروں ۔جی بتائے استانی سیانی نے کہا تو جناب جب انسان جبر سہتے سہتے تنگ آ جاتا ھے اور صبر کی انتہا ھو جاتی ھے تو انسان مخالفت شروع کر دیتا ھیے اور جب مخالفت کو عروج ملتا ھے تو رکاوٹ کے لیے بڑھتا ھے رکاوٹ انسان کو مزاہمت کی طرف لے جاتی ھیے ۔مزاحمت رویے کے خلاف انسانوں کا دردعمل ھوتا ھے زبان دراز نے لقمہ دیا اور پھر رسموں رواجوں کے خلاف مزاحمت ، بیجا ظلم وستم کے خلاف مزاحمت ، کالے قوانین کے خلاف مزاحمت ، عوام کو بے جا تنگ کرنے کے خلاف مزاحمت ارے ھاں استانی سیانی کی بات کاٹ کر ہتھ چھٹ نے مداخلت کی جیسے ابھی صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں لوگوں نے گزشتہ آٹھ سال سے حکومتی پالیسیوں کو یکسر نامنظور کر دیا ھے بلدیاتی نظام ھی
حکومتی پالیسیوں کا آئینہ دار ھوتا ھے
او بھائی صاحب زبان دراز نے بات کاٹ کر بولنا شروع کر دیا حکومت تو اب بھی اپنی پالیسیوں پر نازاں ہے یہ جو شاہ سے زیادہ شاہ وفادار بنے پھرتے ہیں وہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم کو شکست سمجھ رہیے ہیں جبکہ سچ یہ ھے کہ مہنگائی ، لاقانونیت ،اقربا پروری ، غربت اور بیروزگاری نے جینامحال کر دیا ھے ۔ھاں ھاں بولو زبان دراز نے گستاخ کی طرف اشارہ کیا ۔
یہی وہ لمحہ ھوتا جب سوچ اور فکر کرنے والے قلم کا سہارا لیتے ہیں احساس دلانے کے لیے لمحہ موجود کے گھاؤ دکھانے کے لیے یہ لوگ کبھی فیض بنتے ہیں، کبھی فراز ھوتے ہیں ، کبھی فہمیدہ ریاض کہلاتے ہیں ، کبھی بابا نجمی ھوتے ہیں ، کبھی سجاد لاکھا بنتے ہیں ، حسن ناصر ھوتے تو کبھی کاسترو ھوتے ہیں اور کبھی نیلسن منڈیلا ھو جاتے ہیں
یہ عجیب بہادر اور باضمیر لوگ ھوتے ہیں یہ آئینہ بردار اپنے اپنے وقت کے اوتار ھی معلوم ھوتے ہیں
آج کے لمحہ موجود میں ظلم وستم ، بے راہروی سمیت حرف تنقید برائے کا علم بلند کیے سجاد لاکھا اپنے نشتر لفظوں کے ساتھ وقت اور حالات کی رفوگری کرتے نظر آتے ہیں کرب اور دکھ ان کے لفظوں سے چھلکتا ھے ایک شعر دیکھیے
یہ کس محبت مزاج دھرتی پہ قہر ٹوٹا
یہ کیسے کوفہ مزاج لوگوں میں پھنس گئے ہیں
چند دن پہلے سڑک کنارے ھونا والا واقعہ کیسے لفظوں کے سانچے میں ڈھلا ۔
سانحہء سیالکوٹ
یہ درندوں کا دیس ہے صاحب !
صرف شکلیں ہیں آدمی جیسی
ظلم جب ہو رہا تھا دھرتی پر
یہ ریاست خلا میں تھی شاید !
کڑے سچ جب تلخیاں بن کر سوہان روح بن جاتے ہیں تو لفظ یوں ماتم کناں ھوتے ہیں اس نظم میں دیکھیے اور یہ اشعار زندہ ضمیر پڑھ کر سر دھنتے ھی ہیںاور جب گھٹن ماحول کو آلودہ کر دے تو کہیں سے آواز برنا بنتی ہے تو کبھی عثمانی ھو جاتی ھیے یہ نظم دیکھیں
پتھر کی عمارت میں
ترازو بھی ہیں، بت بھی
مظلوم کی آنکھوں سے چھلکتا ہْوا
غم بھی
انصاف کو مصلوب کیے جانے کا
دکھ بھی
سب کچھ ہے مگر
دل ہے نہ احساس نہ درماں
مخلوق نے پوجا تمہیں اوتار سمجھ کر
صد حیف کہ تم
خاک کے پتلے بھی نہ نکلے
گوشہ دانائی کے کمرہ تنہائی میں سب چپ تھے اور سجاد لاکھاکی شاعری گونج رھی تھی کہ اچانک استانی سیانی کی آواز آئی گستاخ جی کچھ نہ بولیے بس سجاد لاکھا کی شاعری سناہییگستاخ نے سب کو دیکھا سب نے ہاں ہاں ہاں کیا نداز میں سر ہلا دہیے یہ غزل دیکھیے
اٹھ رہی ہے صدا کو بہ کو، خواب ہے
منصفو ! عدل کی آرزو خواب ہے
ساقی، دربان، واعظ کی تثلیث میں
مے کشو ! لطفِ جام و سبو خواب ہے
مت ڈرو ! حاکمِ شہر سے مت ڈرو !
پی رہا ہے ہمارا لہو ، خواب ہے
خواب ہے رقص کرتی ہوئی ہر گھڑی
خوف و دہشت یہاں چار سو، خواب ہے
کیا کریں اب ترا حْسن توبہ شکن
اب یہاں محفلِ رنگ و بو خواب ہے
ایک بات بتاوں آپ کو یہ جو مزاحمت ھے ناں یہ غار حرا کی تاریکی سے نکلی تھی اور روشنی بن کر قرعہ ارض پر پھیل گئی تھی یہی مزاحمت کربلا میں ظلم وبربریت سے ٹکرائی تو شھادت کہلائی ، یہی مزاحمت سقراط بنکر زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دیتی ھے مگر سچ کہنے اور سچ بولنے سے پیچھے نہیں ہٹتی اور یہ مزاحمت ھی تو ھے جو منصور بن کر سولی کو چومتی ھیے مگر سچ کا دامن نہیں چھوڑتی ۔بس اور کچھ نہیں خدا ان سب کا حامی و ناصر ھو اور پھر سکوت زدہ گوشہ دانائی کے کمرہ تنہائی میں خاموشی چھا گئی سب ھی چل دیئے۔