امریکا، جدہ اور مری۔۔۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

8 جنوری بروز ہفتہ پاکستان کے معروف ترین سیاحتی مرکز میں پورے ملک سے گئے لاکھوں شائقین پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب انہیں برف کے طوفان نے آن گھیرا۔ یہ ناگہانی آفت 30 کے قریب زندگیاں نگل گئی۔ اب حکومت ان اموات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے کمیٹی کمیٹی اور انکوائری انکوائری کھیل رہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے منتظمین اورعوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اداروں کی غفلت، لاپروائی اور غیر ذمہ داری کے باعث یہ سب کچھ رونما ہوا مگر ہفتہ اور اتوار کے دو روز میں وہاں سے جس طرح کے واقعات رپورٹ ہوئے وہ ہمیں بطور قوم، بطور مسلمان اور بطور شہری شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ میں ان واقعات پر بات کرنے سے پہلے ماضی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے دو واقعات بتانا چاہتا ہوں۔
جنوری 2015ء کی 5 تاریخ کا واقعہ ہے، میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکہ کی سٹیٹ نیو جرسی میں مقیم تھا۔ میرے دیرینہ دوست، پاکستان کے منجھے ہوئے اور باوقار بیوروکریٹ ڈاکٹر فیصل عظیم جو ان دنوں پینسلوینیا یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے، کا ٹیلی فون آیا اور مجھے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں نیو جرسی میں ہوں اور دو دن بعد پاکستان جا رہا ہوں۔ انھوں نے مجھ پر شدید دباؤ ڈالا کہ مجھے ملے بغیر آپ نے واپس نہیں جانا۔ حسب روایت میں نے ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اسی دن پیرس برگ کے قصبے مڈل ٹاؤن جانے کے لیے کمر کس لی۔ میں اور میری اہلیہ نیوارک ٹرین اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہوئے اور مڈل ٹاؤن روانہ ہوگئے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور برف باری کے ساتھ تیز ہوا چل رہی تھی۔ میں نے ڈاکٹر فیصل کو اطلاع دی تو اس نے کہا کہ میں کسی اور سٹیٹ میں تھا، واپس آ رہا ہوں۔ ایک گھنٹے میں مڈل ٹاؤن پہنچوں گا۔ پہلے آپ کو اس لیے نہیں بتایا کہ آپ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیں گے ۔ میں نے کیب کو فون کرنا شروع کیا مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ برف باری کے ساتھ تیز ہوا جسم کو چھلنی کر رہی تھی۔ دور دور تک کوئی دیوار بھی نہ تھی جس کی آڑ لے کر ہوا یا برف سے بچا جا سکے۔ مجھے اپنی پریشانی تو کم تھی اپنی اہلیہ کی بیماری کا احساس تھا۔
میں بہت گھبرایا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک گاڑی میں سوار بزرگ گورا گوری اپنی بیٹی کو اسٹیشن پر ڈراپ کرنے آئے۔ ٹرین آئی اور ان کی بیٹی چلی گئی۔ میں نے ہمت باندھی اور ان سے بات کی۔ انھوں نے ہمیں گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔ ہم گاڑی میں بیٹھے تو انھوں نے ہیٹر لگادیا۔ بزرگ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کہاں جانا ہے۔ میں نے انہیں پتا بتایا، کچھ دیر گاڑی چلتی رہی پھر انھوں نے ایک گھر کے آگے جاکر گاڑی روک کر کہا کہ آپ کے دوست کا گھر آ گیا۔ میں نے اپنے دوست کو فون کیا تو اس نے کہا، آپ کسی قریبی ریسٹورنٹ میں بیٹھیں، میں آکے آپ کو لے لیتا ہوں۔ میں نے بزرگ سے درخواست کی کہ ہمیں ریسٹورنٹ تک پہنچا دیں۔ انھوں نے بخوشی ہمیں ریسٹورنٹ پر اتار دیا۔ ہمارے اوسان بحال ہونا شروع ہوئے تومیں نے باہر دیکھا کہ وہ بزرگ میاں بیوی کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں باہر گیا اور انھیں اندر آکر سوپ پینے کی دعوت دی۔ انھوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا ہم آپ کے دوست کا انتظار کر رہے ہیں، اگر وہ نہ آیا تو آپ کو رات رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ ہم نے سوچا ہے کہ ہم آپ کو اپنے گھر لے جائیں گے ۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اصرار کرکے انہیں بھجوا دیا مگر جاتے جاتے انھوں نے اپنا فون نمبر دیا اور کہا کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ہمیں فون کرلینا۔ آدھے گھنٹے بعد میرا دوست ڈاکٹر ہمیں لینے آگیا۔ میں اس غیر مسلم جوڑے کے عمل سے بہت متاثر ہوا۔
اسی طرح ایک مرتبہ مجھے اللہ تعالی نے اپنے گھر آنے کا موقع فراہم کیا اور میں عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں جدہ پہنچا۔ میرے میزبان مجھے مین ایئر پورٹ سے پک کرنے والے تھے جبکہ سعودی امیگریشن سکیورٹی نے مجھے عمرے والی ایگزٹ پر بھجوا دیا۔ میں نے ایک عربی سے درخواست کی کہ مجھے اس نمبر پر ایک فون کروا دو، اس نے کال ملا دی۔ میرے دوست نے مجھے سمجھانا شروع کیا کہ ہم سامنے کھڑے ہیں، میں کافی بحث کرتا رہاکہ میں بھی باہر کھڑا ہوں۔ آخر کار انھوں نے کہا کہ کسی سے بات کروا دیں۔ میں نے فون کرانے والے شخص سے بات کروا دی۔ عربی میں کچھ دیر بات ہوئی اور فون بند ہوگیا۔ ائیرپورٹ کے وائی فائی سے میرا واٹس ایپ چلا تو مجھے دوست کا فون آیا اور کہا کہ آپ تھوڑا سا چل کے آئیں، آپ غلط سائیڈ پر چلے گئے ہیں۔ میں یہ رسک لینے کو تیار نہیں تھا۔ آخر اس نے کہا کہ اسی عربی سے میری بات کرادیں۔ میں نے اپنے پاس کھڑے اسی عربی سے ان کی بات کرا دی فون بند ہونے پروہ مجھے ساتھ لے کر چل پڑا اور اپنی لینڈکروزر میں بٹھا کر میرے دوست تک لے گیا۔ میں اس عربی کے حسن سلوک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ہم بخوشی جدہ سے مکہ روانہ ہو گئے۔ کچھ دیر بعد میرے دوست نے پوچھا کہ فیصل بھائی، آپ نے اس سعودی کو کوئی پیسے تو نہیں دیے۔ میں نے کہا، نہیں۔ مجھے تجسس ہوا تو میں نے پوچھا کہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ میرے دوست نے بتایا کہ میں نے اسے کہا کہ یہ کنفیوز ہو گئے ہیں، انھیں صرف یہ بتا دو کہ میں فلاں جگہ کھڑا ہوں، یہ چل کے آ جائیں گے تو اس کہا کہ میں نے نہیں بتانا۔ جب دوسری مرتبہ میں نے فون کیا تو میں نے اس سے کہا کہ آپ کی مہربانی بتا دو تو اس نے کہا کہ میں 300 ریال لوں گا اور ان لوگوں کو آپ کے پاس چھوڑ دوں گا مگر راستہ نہیں بتاؤں گا۔ یہ دو واقعات میرے لیے بہت اہم ہیں۔
مری میں طوفان میں پھنسے سیاحوں کے ساتھ ہونے والے سلوک نے مجھے یہ دونوں واقعات یاد دلا دیے۔ جب لوگ سردی میں ٹھٹھر کر مر رہے تھے تو وہاں موجود لوگ گاڑی کو دھکا لگانے کا پانچ پانچ ہزار مانگ رہے تھے۔ ایک انڈا 500 روپے میں فروخت ہوا۔ چائے کے دو کپ دو ہزار روپے میں ملے اور ہوٹل کے کمرے کا 50 ہزار تک طلب کیا گیا۔ لوگوں نے پناہ کے لیے اپنی خواتین کے زیور، گھڑیاں اور دیگر قیمتی اشیاء گروی رکھ دیں تو میری روح کانپ گئی۔ کہاں وہ امریکہ کا غیر مسلم جوڑا اور کہاں ارضِ مقدس کے مسلمان بھائی کا راستہ بتانے کے لیے معاوضہ طلب کرنا اور کہاں ارضِ پاک میں ہم وطن اور ہم مذہب لوگوں کو پیسے نہ ملنے پر موت کے منہ میں چھوڑ دینا، یہ سب کیا ہے؟ ہم کس طرف جا رہے ہیں، فیصلہ آپ خود کر لیں!