بارگاہِ امام بری ؒ ، ملکۂ کوہسار مری ، ہری بھری

معززقارئین !اِس موقع پر میرے لئے حقیقی درویش ’’ قائدِ تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے ، جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور کئی صدور اور وزرائے اعظم کی دعوت پر ایوان ِ صدر اور وزیراعظم ہائوس جانے سے معذرت کرلی تھی۔ آغا جی نے اپنی تنظیم کے لئے ایران یا کسی دوسرے ملک سے کبھی کوئی امداد نہیں لی۔موصوف حقیقی معنوں میں اتحاد بین اُلمسلمین کے ترجمان ہیں۔
2007ء کے آغاز میں نے آغا جی کی فرمائش پر نامور دانشور، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ (جنت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھ دِیا ! میرے پیش لفظ کے آخر میں سیّد عباس کاظمی نے لکھا کہ ’’ اثر چوہان صاحب کاتعلق اہل سُنّتؔ سے ہے لیکن آپ اہلِ بیتؓ اور آئمہ اطہارؓ کا بہت احترام کرتے ہیں !‘‘۔
’’ حسینی راجپوت ! ‘‘
یکم اکتوبر 2017ء کو میرے کالم میں حضرت امام حسین ؓ کے بارے ایک منقبت شائع ہُوئی تھی اور اُس کے ساتھ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ اگر حُسینی براہمن حضرت امام حسینؓ اور اُن کے ساتھیوں کی حمایت میں یزیدی فوجوں سے لڑنے کے لئے میدانِ کربلا میں پہنچ سکتے تھے تو کوئی راجپوت کیوں نہیں پہنچا ؟ اِس پر لکھی اپنی منقبت کے مَیں پانچ بند پیش کر رہا ہوں …
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی، ہوندا
…O…
تیرے، غُلاماں نال، کھلوندا!
پنج ستّ وَیری، مار دا، کوہندا!
فیر مَیں ، مَوت دی، نِیندر سوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
تیرے خیمے، سلامی دیندا!
جَد تُوں، اِذنِ غُلامی، دیندا!
فیر مَیں، اپنے عَیب، لکوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
صدقے زینب ؓ دی، چادر دے!
علی اکبرؓ دے، علی اصغرؓ دے!
پَیراں تے، سِر، دَھر کے روندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
جے مِل جاندا، تیرا وسِیلہ!
بخشیا جاندا، میرا قبِیلہ!
جنت وِچّ، مِل جاندا، گھروندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
نذرانہ دیندا، جان تَے تن دا!
غازی عباسؓ دا، بازُو بَن دا!
حُر دے، سجّے ہتّھ، کھلوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
کوہندے، اثرؔ نُوں ، یزِید دے چیلے!
اپنے لہو نال، مَردے ویلے!
مولاؓ، تیرے، پَیر میں دھوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
اگلے دِن مجھے سیّد عباس کاظمی نے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب! آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی کا اپنے تمام رُفقاء کے لئے یہی فرمان / پیغام ہے کہ ’’ آج سے اثر چوہان صاحب کو حسینی راجپوتؔ کہا جائے!‘‘۔
’’سانحہ مری !‘‘
8 جنوری کو مری میں برفانی طوفان سے 23 پاکستانی سیاح جاں بحق ہوگئے تو اب ہمارے سیاحت کے کاروبار کا کیا ہو گا؟ سینکڑوں گاڑیاں برف میں دب گئیں اور گاڑیوں کو دھکا لگانے والوں نے لوٹ مار شروع کردِی توہوٹل والے کیوں نہ کرتے ؟ مری کی انتظامیہ کے بارے کیا کہا جائے ؟بہتر ہے کچھ کہا ہی نہ جائے ۔ اِدھر اُدھر کے لوگوں نے سیاحوں سے جو، لوٹ مار اور وارداتیں کی ہیں اُس کی مثال نہیں ملتی۔ قومی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنے پیارے پاکستان سے محبت کرنے والوں نے ’’ سانحہ مری‘‘ کے عنوان ہی سے اپنے خیالات کا اظہار کِیا۔
مافیا
سسلی سے تعلق رکھنے والے مجرموں کے بین الاقوامی گروہ کو مافیا کہا جاتا تھا لیکن، اِس وقت تمام ملکوں میں سرکاری یا پرائیویٹ تنظیموں کو مافیا ہی کہا جاتا ہے ۔ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو بھی مافیا چیف کہہ کر ہی مخاطب کرتے ہیں ۔
اُردو اور پنجابی کے نامور شاعر اور روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن برادرِ سعید آسی ؔ نے اپنے 11 جنوری کی ’’ بیٹھک‘‘ میں جس انداز میں اُن لوگوں کی ’’ اُٹھک بیٹھک‘‘ کرائی ہے اُس کا مختصر حال بیان کر رہا ہُوں ۔ سعید آسی صاحب کے 11 جنور ی کے کالم کا عنوان ہے کہ ’’ مافیائوں کے راج میں توبہ توبہ، خُدا خُدا کیجئے! ‘‘ ۔ بہر حال چند نکات تو پیش ہی کرنا ہوں گے ۔
’’ قیامت خیزی کا ماحول ! ‘‘
معزز قارئین ! اپنے کالم کا آغاز میں سعید آسی صاحب نے ’’ قیامت خیزی کے ماحول ‘‘ سے کِیا ہے جو عرصے سے بن رہا تھا۔ ’’ سانحہ مری ‘‘ کی بنیاد زیادہ لوٹ مار اور ہوس پرستی پر رکھی گئی تھی اور جب ہوٹلوں سے 20 ہزار روپے کمرہ کی ہانکیں لگائی جا رہی تھیں تو سیاحوں پر کیسی گزر رہی ہوگی۔ مسلسل 18 گھنٹے سے اپنی سٹارٹ کی گئی گاڑیوں میں ٹھٹھرتے ، سسکتے لوگ بے بسی کی تصویر بن گئے تھے ۔ یہاں تو قدم قدم پر راہبروں کے روپ میں راہزن لوٹ مار کیلئے بیٹھے ہیں اور پھر مرنے والوں کے عرس کا اہتمام کر کے دھمالیں ڈالتے ہیں ۔ ارے ایسا بھی کوئی بے دردہوگا؟
’’ حضرت قتیل شفائی کی یاد ! ‘‘
معزز قارئین ! ’’ سانحہ مری ‘‘ کے بعد مجھے اپنے مرحوم دوست نامور شاعر جنابِ قتیل شفائی کی یاد آ رہی تھی۔ اُن سے اپنے تعلقات کے بارے مَیں بہت کچھ لکھ چکا ہُوں لیکن مجھے دسمبر 2000ء کا ایک دِن یاد آ رہا ہے کہ ’’ جب انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن ( موجودہ چیئرمین پیمرا )پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ ، قتیل صاحب کو ساتھ لے کر میرے گھر تشریف لائے تھے تومَیں نے اپنے کئی شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں کی محفل گرم کرلی تھی ۔ پھر مَیں نے اور پروفیسر محمد سلیم بیگ نے مری میں بھی ایک مختصر محفل مشاعرہ کا اہتمام کِیا تھالیکن، بات تو سانحہ مری کے بارے ہو رہی ہے ؟ ۔
’’ سیّد محمد جعفری مرحوم کی یاد ! ‘‘
معزز قارئین ! نامور شاعر سیّد محمد جعفریؒ کے ایک نواسہ میجر سیّد نیئر عباس زیدی نے بڑے دُکھی انداز میں مجھے یہ چند شعر لکھ کر بھجوائے ہیں ، آپ بھی اِس اُداسی میں شریک ہو جائیں …
’’ پوچھا مری ؔ سے ، جو تیرے ، مہماں تھے کیا ہُوئے؟
بولا میری طمع کا زہر، کھا کے مر گئے!
…O…
پوچھاکہ ، اُن میں ، عورتیں ، بچے بھی تھے مگر!
بولا وہ ایسے روپ پہ، شرما کے مر گئے!
…O…
پوچھا تیرے ضمیر پہ کوئی شکن پڑی ؟
آئی صدا،جو ، با ضمیر تھے ، وہی مر گئے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)