منی بجٹ اور سٹیٹ بنک ایکٹ کی منظوری

قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامے کے باوجود جمعرات کی شام منی بجٹ اور سٹیٹ بنک ترمیمی بل سمیت متعدد مسودات قانون کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ اس موقع پر اپوزیشن نے سپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج کیا اور شدید نعرے بازی کی اور سپیکر ڈائس کا گھیرائو کرتے ہوئے منی بجٹ بل اور سٹیٹ بنک ترمیمی ایکٹ کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ اس موقع پر حکومتی ارکان نے وزیراعظم کی نشست کے اردگرد اپنا دفاعی حصار بنالیا۔ اپوزیشن نے دونوں بلوں پر ایوان میں انکے حق اور مخالفت میں پڑنے والے ووٹوں کی باقاعدہ گتنی کرانے کا تقاضا کیا مگر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رائے شماری کا اپنا طریقہ برقرار رکھا اور یہ بل کثرت رائے سے منظور ہونے کا اعلان کر دیا۔
ضمنی فنانس بل (منی بجٹ) مجریہ 2021ء بعض ترامیم بھی پیش کی گئیں جنہیں ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ ان ترامیم کے تحت ڈبل روٹی‘ نان‘ شیرمال‘ دودھ‘ لیب ٹاپ‘ لال مرچ‘ آیوڈین نمک پر ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے جبکہ مختلف شعبوں کو دستیاب 343‘ ارب روپے کے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چھوٹ اور رعایت ختم کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں منی بجٹ کے ذریعے درآمدی گاڑیوں اور موبائل فونز پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جبکہ بچوں کے پانچ سو روپے تک کے 200 گرام دودھ کے ڈبے پر جی ایس ٹی واپس لے لیا گیا ہے تاہم اس سے زائد قیمت کے ڈبے پر جی ایس ٹی برقرار رہے گا۔ اسی طرح پولٹری کے اِن پٹ پر جی ایس ٹی برقرار رکھا گیا ہے۔ مقامی 13 سو سی سی کار پر ڈیوٹی پانچ فیصد سے کم کرکے اڑھائی فیصد کر دی گئی ہے جبکہ 2001 سی سی سے زائد قوت کی گاڑیوں کا سیلز ٹیکس دس فیصد کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح گھریلو صنعتوں کی ترقی کیلئے کاٹج انڈسٹری پر جی ایس ٹی کی شرح دس فیصد سے کم کرکے آٹھ فیصد کر دی گئی ہے تاہم ڈیوٹی فری شاپس سے قواعد سے ہٹ کر نکالی جانیوالی اشیاء پرسیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ اسی طرح سیکشن 6۔اے کے تحت پاکستان میں بنائی جانیوالی مشینری اور سیکشن 13 کے تحت ہونیوالی برآمدات اور شپنگ صنعت کو فراہم کئے جانیوالے پارٹس پر بھی جی ایس ٹی کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے اور 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کردیا گیا ہے جبکہ قرآن مجید اور اخبارات و جرائد کیلئے سپلائی ہونیوالا کاغذ اور نیوز پرنٹ‘ نئے کرنسی نوٹ، سٹاک مارکیٹ کے حصص اور پرائز بانڈ کی سپلائی‘ سونے کی پلیٹوں‘ پیکٹوں میں بند مرغی گوشت اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات‘ حلال مویشیوں کے اعضائ‘ الیکٹرانک سرکٹ اور متعدد دیگر مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرکے ان پر 17 فیصد جی ایس ٹی لاگو کر دیا گیا ہے اور مختلف پاور کی گاڑیوں پر ایک لاکھ سے چار لاکھ روپے تک انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ڈبل کیبن گاڑیوں کی درآمد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح بڑھا کر دس فیصد کردی گئی ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ہم معاملات کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں اور جب بھی دستاویزی شکل دینے کی بات کی جاتی ہے تو واویلا مچ جاتا ہے کیونکہ سب نے بندر بانٹ کی ہوئی ہے۔ انکے بقول 343‘ ارب روپے میں سے 280‘ ارب روپے ری فنڈ ہو جائینگے۔ باقی صرف 71‘ ارب روپے رہ جائیگا تو یہ ٹیکس کا طوفان تو نہیں‘ اس سے غریب کو کیا ہو جائیگا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات‘ تیل‘ گیس‘ ادویات اور دوسری اشیائے خوردنی کے نرخوں میں بتدریج اضافے اور صنعت کاروں و جاگیرداروں کے مختلف مافیاز کی جانب سے وقتاً فوقتاً کی جانیوالی مصنوعی مہنگائی کے نتیجہ میں مہنگائی کا گراف پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ بلند ہوا ہے جو اس لئے بھی عوام کیلئے اضطراب کا باعث ہے کہ عمران خان اور انکی پارٹی پی ٹی آئی نے سابق حکمرانوں کے بڑھائے گئے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل اور اسی طرح آئی ایم ایف کے ناروا شرائط پر مبنی قرضوں سے ملک اور قوم کوخلاصی دلانے کے نعروں اور دعوئوں کی بنیاد پر 2018ء کے انتخابات میں وفاقی اور صوبائی اقتدار کا مینڈیٹ حاصل کیا تھا جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے آغاز ہی میں پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کی سابق حکمرانوں کی پالیسی برقرار رکھتے ہوئے دو ضمنی میزانیوں کے ذریعے بھی عوام پر براہ راست اور بالواسطہ نئے ٹیکسوں کے انبار لگا دیئے گئے۔ پھر پی ٹی آئی حکومت نے قوم کو آئی ایم ایف سے خلاصی دلانے کا وعدہ ایفاء کرنے کے بجائے اس سے مزید سخت شرائط کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے قسط وار قرضے کا معاہدہ کرلیا جبکہ پی ٹی آئی دور میں پیش ہونیوالے تین قومی اور صوبائی میزانیوں میں بھی مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر مختلف نئے ٹیکسوں کا اضافہ کر دیا گیا چنانچہ عام آدمی جو پہلے ہی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل سے عاجز آیا ہوا تھا‘ ان مسائل کے دلدل میں مزید غرق ہونے لگا اور اس وقت عام آدمی کیلئے عملاً جسم اور تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے جسے بہت تیزی سے قبر کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے تحت لاگو ہونیوالے سٹیٹ بنک ایکٹ اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع منظور کرائے گئے فنانس بل کے حوالے سے ملک کی آزادی اور خودمختاری کی بھی پاسداری نہیں کی گئی چنانچہ اسی تناظر میں اپوزیشن ہی نہیں‘ دوسرے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی طرف سے بھی حکومتی پالیسیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تاہم اصلاح احوال کا سوچنے کی بجائے حکومتی وزیروں‘ مشیروں اور خود وزیراعظم نے ہر گند اور خرابی کا سارا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر اپوزیشن کے لتے لینا شروع کر دیئے جس سے سیاسی محاذآرائی کی فضاگرم ہونا فطری امر تھا۔ اب جس طرح پارلیمنٹ میں زورزبردستی کے ساتھ وائس ووٹ کی بنیاد پر عددی اکثریت ظاہر کرے ضمنی میزانیے سمیت مختلف بل منظور کرائے جا رہے ہیں‘ اس سے پارلیمنٹ کی وقعت و صلاحیت پر سوال اٹھانے کا بھی اپوزیشن کو موقع مل رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آئے روز مہنگائی کے سونامی اٹھانے پر منتج ہونیوالے حکومتی اقدامات کا بے معنی دلیلوں اور تاویلوں سے دفاع بھی کیا جاتا ہے اور یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر نمک بھی چھڑکا جاتا ہے کہ 71‘ ارب روپے کے نئے ٹیکس لگنے سے عوام مہنگائی سے مر تو نہیں جائیں گے۔
اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی کے عفریب نے چاروں جانب سے عوام کو جکڑ رکھا ہے جس پر عوامی اضطراب کے علاوہ اب حکومتی صفوں کے اندر سے بھی اختلاف رائے پر مبنی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ خود پی ٹی آئی کے مختلف عہدیداروں اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے بالخصوص منی بل اور سٹیٹ بنک ترمیمی ایکٹ پر تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ حکومت ایک جانب منی بجٹ کے ذریعے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ لاد رہی ہے اور دوسری جانب رواں ماہ کے دوران بھی فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی چار روپے 30 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کرنے کا نیپرا کی جانب سے باضابطہ نوٹیفکیشن کے ذریعے اعلان کر دیا گیا ہے جبکہ اگلے پندھرواڑے کے نئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ناروا اضافے کی سمری اوگرا تیار کرکے بیٹھی ہوئی ہے۔ اس صورتحال میں عوام کے پاس زندہ درگور ہونے کے سوا اور کیا چارۂ کار رہ جائیگا۔ اپوزیشن تو اپنی اپنی مصلحتوں کے تابع شاید ہی حکومت کی تبدیلی کیلئے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر پائے تاہم آئندہ انتخابات میں عوام ضرور اپنی تحقیر اور روزافزوں مسائل کا حکمران پی ٹی آئی سے بدلہ لے سکتے ہیں۔