ایک مسلم سا کسی کا اُوج نہیں ہے
گلشنِ اسلام کے گلِ خنداں ہیں علیؓ
مولیٰ علیؓ فاتحِ خیبر شیرِیزداں ہیں علیؓ
کفر کی کیا مجال کہ وہ اسلام کو للکارے
امام الانبیاء کے باب کے درباں ہیں علیؓ
مولیٰ علی حیدر کرار کرم وجہہ کا ذیشان فرمانِ برحق ہے کہ ’’فوجی اللہ کے سپاہی اور ملک و ملت کے نگہبان ہوتے ہیں جو دین کی حفاظت کیلئے قوت مہیا کرتے یں۔ درحقیقت فوجی ہی امن و امان کے حقیقی محافظ ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے ہی اندرونی انتظام و انصرام درست رکھا جا سکتا ہے‘‘۔ بلا شبہ اقوام ِ عالم میں سپاہِ اسلام یعنی پاک فوج کے تذکرے و مرتبے تاریخ کے سنہری الفاظ میں لکھے گئے ۔ میرا اپنا ہی ایک اور شعر ہے کہ:۔
ایک مسلم سا کسی کا اُوج نہیں ہے
پاک فوج سی کسی کی فوج نہیں ہے
ہماری فوج کی کامرانیوں اور قربانیوں کے چرچے تو دنیا بھر میں ہیں لیکن صد افسوس کہ صاحبانِ سیاست بار بار اپنی فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ پاک فوج کے خلاف من گھڑت اور بے بنیاد بیانیے بنائے اور بیچے جا رہے ہیں۔ ان بیانیوں کے بانیوں کے سارے عالم میں ڈنکے بجتے ہیں بطور بحری قزاق بلکہ کفن چور بھی ‘ اس لئے چوروں کا یہ چورن بک نہیں رہاکیونکہ خریدار کوئی نہیں‘ لوگ کہتے ہیں کہ کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربہ۔ عالمی میڈیا کا سامنا کرتے ہوئے اسحق ڈالر کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں اپنے دیس میں سلیکٹڈ سلیکٹڈ گردانتے تھکتے نہیں لیکن سلیکٹڈ اور
سلیکٹرز کی سُرسن کر عوام کہتے ہیں کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔ جن ڈبل شاہوں کی منی لانڈرنگ اور کرپشن کہانیوں کو BBC ایسے مستند اداروں نے فلمایا۔ کچھ عرصہ قبل ڈیلی میل والے ڈیوڈ روز روزانہ انھیں للکارتے رہے کہ سچے ہو تو سامنے آئو لیکن یہ بھاگتے رہے اور آج برداڈ شیٹ ان کے جھوٹ بدیانتی کو بے نقاب کر رہا ہے۔ اPDM کا کہنا ہے کہ غیر اعلانیہ مارشل لاء ہے‘ قوم اب اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کا رُخ کرے لیکن صد فیصد درست فرمایا ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے کہ جس نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں کوئی وزن نہیں‘اگر الیکشن پر کوئی شک ہے تو متعلقہ اداروں سے رجوع کریں جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ اچھی نہیں‘ فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے اور جو باتیں کی جا رہی ہیں اس کا جواب حکومت پاکستان نے بطریق احسن دیا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار ایک منظم ادارے کے ترجمان ہیں اور ہمیشہ مدلل‘ مثبت و معیاری گفتگو کرتے ہیں خوب سلیقے سے انھیں بولنے اور بات کہنے کا ہُنربھی خوب آتا ہے۔ وہ اپنے منصب کی مناسبت سے بڑے ہی سوھنے لگتے ہیں اور سجتے ہیں بحیثیت ڈی جی ۔ترجمان پاک فون نے دو ٹوک کہہ دیا کہ فوج کو سیاست میںآنے کی ضرورت نہیں لہٰذا سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ موصوف نے صاف صاف کہا کہ ہمیں اس معاملے سے دور رکھا جائے کسی سے کوئی بیک ڈور رابطے نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ فوج پر تنقید اور الزامات میں کوئی حقیقت ہو تو جواب دیں‘ ان چیزوں میں ملوث ہونا نہیں چاہتے۔ مولانا فضل الرحمن سے متعلق سوال پر ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ان کے راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی‘ وہ آنا چاہتے ہیں تو آئیں ان کی دیکھ بھال کریں گے‘ چائے پانی
پلائیں گے۔پاک فوج کے سچے جذبے‘ حق شہادتیں اور قربانیاں دیکھ کر قوم کہتی ہے کہ پاک فوج زندہ باد‘ پاک فوج کو سلام‘ سپہ سالار کو سلام‘جنہوں نے کئی بار فرمایا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں اور پاکستان کے ساتھ ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مکمل طور پر پیشہ ور فوجی افسر ہیں‘ حکومتی امور اور سیاسی معاملات میں مداخلت کے سخت مخالف ہیں‘ بالکل ہی غیر جانبدار کوئی سیاسی سلسلہ اور وابستگی ہرگز نہیں‘ سچے پکے فوجی ہیں مگر پروٹوکول مائنڈ نہیں ہیں الغرض جنرل باجوہ ماہر‘ تجربہ کار اور باصلاحیت جرنیل ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں کوئی بھی منتخب حکومت ہو فوج اُس کے ساتھ ہوتی ہے۔اہلِ سیاست کو بھی سوچنا ہو گا کہ تصادم اور محاذ آرائی سے گریز کریں ۔ افواجِ پاکستان اپنی جان ہتھیلیوں پہ رکھ کر دشمنانِ وطن سے برسرِ جنگ ہیں اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن رد الفساد دہکتی آگ کے شعلوں میں سے گزرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر ظلم کی آگ میں چل رہا ہے‘ سرحدوں پر کشیدگی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری قوم کی دعائیں اپنی بہادر افواج کے سنگ سنگ ہوں۔ اس حوالے سے میں نے کہا تھا کہ سُر‘ سوچ‘ رنگ ۔ سب تیرے سنگ۔ ہم سب کو متحد ہونا ہو گا آج ایک بار پھر 1965ء جیسے جذبوں کی ضرورت ہے:
سرفروشی ہے ایمان تمہارا
جراتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کرے سرحدو کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
اے شجاعت کے زندہ نشانو
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں