کسان تحریک کے خلاف مودی کے اوچھے ہتھکنڈے
بھارتی کسانوں کا زرعی قوانین کے خلاف غصہ کم نہ ہوا۔ متنازعہ قوانین کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔دلی چلو تحریک نے مودی سرکاری کا جینا محال کررکھا ہے اور کسانوں کی تحریک پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔تاہم مودی سرکار تاحال متنازعہ زرعی قوانین کے فوائد ہی بیان کر رہی ہے۔اسی تناظر میں بھارتی سپریم کورٹ نے کسانوں کے احتجاج کا باعث بننے والے نئے زرعی قوانین پر سماعت کیلئے بینچ کی تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کسانوں کے احتجاج کا باعث بننے والے قانون پر عمل درآمد کے احکامات جاری کرتے ہوے اس کے خلاف غیر معینہ مدت تک حکم امتناع جاری کر دیا۔ یہ بھارت کے کسانوں کی بڑی جیت ہوئی ہے، جبکہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھارت کی مودی سرکار کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ بھارتی حکومت نے ان زرعی قوانین کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور عدالت کو حکومت کے اس رویہ سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔کسان خودکشی کر رہے ہیں، جبکہ سپریم کورٹ اپنے اوپر کسی کی موت کا ذمہ نہیں لینا چاہتی۔چیف جسٹس شرادبوبدے نے دوران سماعت کہا کہ کسانوں کے خدشات کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ ایک پینل تشکیل دے گا۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار ہے اور ماہرین کی کمیٹی اپنی رپورٹ عدالت کو جمع کرائے گئی۔ رپورٹ کی تیاری کی خاطر سپریم کورٹ نے ستمبر 2020ء میں جاری ہونے والے قوانین پر غیرمعینہ مدت کیلئے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا کہا ہے۔بھارتی حکام کا عدالت میں موقف یہ تھا کہ اس نئے قانون کا مقصد زرعی نظام کو جدت بخشنا ہے۔ تاکہ رسد میں حائل رکاوٹوں کا توڑ کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ بھارت میں حالیہ چند برسوں کے دوران خشک سالی اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے ہزاروں کسان خودکشی کر چکے ہیں۔خیال رہے کہ بھارتی کے ہزاروں کسانوں کا حکومت کی اصلاحات کے خلاف احتجاجی کیمپ لگانے کے حوالے سے ان کا مو?قف ہے کہ متنازعہ نئے نافذ شدہ قوانین کا مقصد صرف نجی خریداروں کو فائدہ اور
کسانوں کیلئے نقصان کا باعث ہے۔گذشتہ دنوں اسی تناظر میں دھرنے والوں نے ہریانہ کے وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر بھی دھرنے کے مقام پر اترنے نہیں دیا تھا جو کہ کسانوں کو نئے زرعی قوانین کے فوائد گنوانے کے لئے احتجاج کرنے والے کسانوں کو مذکورہ قانون کے فوائد بتانے وہاں آئے تھے۔بھارتی سرکار عوام کا عزم توڑنے میں ناکام رہی۔کسانوں سے متعدد مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوے ہیں۔ جس کے بعد مودی سرکار اوچھے ہتکھنڈوں پر اترتے ہوئے دنیا بھر میں اپنے سفارتخانوں کے ذریعے بیرون ملک بھی احتجاجی سکھوں کی فہرستیں فراہم کرنے کو کہا ہے۔ اس سلسلہ میں اس کی جانب سے ہیمبرگ میں ہندوستانی قونصل خانے کے ذریعہ ایک ای میل کے اسکرین شاٹس بھی منظر عام پر آئے ہیں، جس میں ایک مقامی ایسوسی ایشن کو جرمنی میں سکھوں سے متعلق اعداد و شمار اکٹھا کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس ای میل پر لکھا گیا، ‘‘وزارت جرمنی میں مقیم سکھ ڈاس پورہ کے اعداد و شمار کو مرتب کرنے کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی گئی تھی۔اس درخواست میں احتجاج کرنے والے سکھوں کے نام اور پتے کے ساتھ ایک فہرست مرتب کرنے کا کہا گیا تھا۔ہیمبرگ کے قونصل جنرل مدن لال رائگر نے دی کوئنٹ کو تصدیق کی کہ واقعی یہ ای میل سفارت خانے نے بھیجی تھی۔احتجاج کرنے والے کسانوں سے متعلق سکھوں کے سب سے بڑے مذہبی مرکز شری اکال تخت صاحب کے جتھہ دار گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا ہے احتجاج کا معاملہ مذہبی ہے اور نہ ہی یہ سکھ رسم ورواج کے خلاف ہے۔ یہ ایک قانونی معاملہ ہے، جسے کسان رہنماو ¿ں اور حکومت کو مل کر حل کرنا ہوگا۔کسانوں میں صرف سکھ ہی نہیں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں۔ شری اکال تخت اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔ تاہم ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد حل ہونا چاہیے۔ احتجاج کرنیوالے کسانوں کو سہولتیں دی جائیں اور ان کی بات سنی جائے۔مودی سرکار کو سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہے وہ یہ کہ 26جنوری کو نام نہاد یوم جمہوریہ پر بڑے مظاہرے کی تیاریاں جاری ہیں۔مودی سرکار سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ 26 جنوری کو ہونیوالی نام نہاد یوم جمہوریہ کی تقریب کو کسی طرح ’’اہم‘‘ بنا سکے۔ابھی تک بھارت اس تقریب میں کسی غیر ملکی سربراہ کی شرکت کا بندوبست بھی نہیں کر سکا، اس لئے بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے مودی سرکار کو مشورہ دیا ہے کہ گذشتہ برس 16، 15 جون کو لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چینی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونیوالے 20 بھارتی فوجیوں کو ’’بہادری‘‘ کے ایوارڈ دیئے جائیں۔ قوی امکان ہے کہ 26 جنوری کو پر ہزیمت کی موت مرنے والے 16 بہار رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر کرنل سنتوش بابو سمیت 20 فوجیوں کے اہلخانہ کو اشوک چکر، کیرتی چکر اور شوریے چکر ایوارڈ دیئے جائیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی اس تجویز پر بھارت کے اعتدال پسند حلقوں کی جانب سے یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے راہول گاندھی بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’بھارتی فوجی اتنی ہزیمت سے موت کا شکار ہو گئے جبکہ نریندر مودی نے اس حوالے سے بالکل چپ سادھ رہی ہے۔ فوجیوں کی یہ ہلاکت بھارت کے ماتھے پر سیاہ دھبہ ہے۔ مودی ہر چیز پر بات کرتے نظر آتے ہیں سوائے لداخ میں چین بھارت کشیدگی کے‘‘۔ درحقیقت مودی سرکار یوم جمہوریہ کی تقریب کو اہم بنانے کیلئے کسی بہانے کی تلاش میں ہے اور فی الوقت دہلی حکومت کے پاس ان گیلنٹری ایوارڈز کی تقسیم کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اسی بہانے بھارتی فوجیوں کے گرتے مورال کو بھی سہارا دینے کی کوشش کی جائیگی۔کانگریس کے جنرل سکریٹری و راجستھان ریاست کے انچارج اجے ماکن نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) لیڈران کے ذریعے کسانوں پر دئے گئے بیانات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کسانوں کی بات سننے کے بجائے ان کا مذاق اڑا رہی ہے۔ وہ اس طرح کی بیان بازی کرکے ان کی توہین کررہے ہیں جو بہت ہی شرمناک بات ہے۔ کانگریس کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔تاہم اب امید بن چلی ہے کہ سپریم کورٹ کی حالیہ مداخلت کے بعد احتجاج کرنے والے کسانوں کی واپسی ممکن ہوسکے۔ وگرنہ بھارتی حکومت نے یوم جمہوریہ پر فوجی پریڈ کوصرف نیشنل سٹیڈیم تک ہخ محدود کر دیا تھا۔ یوم جمہوریہ پر کسان رہنما کہہ چکے تھے کہ وہ سینے پر گولی کھائیں گے مگر ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کسانوں نیایک بڑے مارچ کی تیاری کر رکھی تھی کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوو ¿ں کا پول کھولیں گے۔جبکہ قبل ازاں مودی سرکار پر کسانوں کے احتجاج کا خوف ایساطاری ہوا کہ اس نے نام نہاد یوم جمہوریہ کی تقریبات کو ہی انتہائی محدود کر دیا تھا۔ جس کے تحت تاریخ میں پہلی بار 26 جنوری کو لال قلعہ کو تالے لگنے تھے۔ مگر بھارتی حکمرانوں کی جانب سے کسانوں کے احتجاج کا خوف کی بجائیکرونا کا بہانہ لگایا گیا تھا۔