خدمت انسانیہ، مفت علاج اور ادویات
انسانیت کی خدمت اور احساس کرنا عام لوگوں کا کام نہیں، اللہ کے خاص بندے ہی یہ کر سکتے ہیںبہت افسوس کے ساتھ کہ سرکاری ہسپتالوں میںکوئی پرسان ِحال نہیں۔ سٹاف سیدھے منہ بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔مجھ جیسے بندے کو تو بات کرتے ہوئے بھی ڈر ہی لگتا ہے ۔ ڈاکٹروں کا برتائوبھی تھانیداروں سے کم نہیں، اور یہ بندہ ِ عاجز کا ذاتی تجربہ ہے۔انسانیت کی قدر نہیں ،نہ ہی اللہ کا خوف رہاہے۔ خوش اخلاقی ہم سے روٹھ گئی۔ ڈاکٹرجو ٹیسٹ ایڈوائز کرتے ہیں ان کی بھی فیس دینا پڑتی ہے۔ اسی طرح جو ادویات ڈاکٹر لکھ کر دیتے ہیں وہ مہنگی ادویات بھی ہسپتال سے نہیں ملتی، اور باہر سے خریدنے کی ہم میں سکت نہیں۔ لہٰذا اکثر ڈاکٹر کی دوا والی سلپ ایسے ہی گھروں میں پڑی رہتی ہے یا پھاڑ دی جاتی ہے۔ پندرہ بیس ہزار ماہوار کمانے والے گھر کا کرایہ دیں، بچوں کو پڑھائیں، روٹی پوری کریں یا گیس بجلی کے بل دیں؟ یہ ہیں انسانیت کے درد… یاد ہے کہ 3-4سال پہلے مجھے گردن پر وارٹ نکلے تو میں ایک سرکاری ہسپتال میں چیک اپ کروانے گیا، ایک سینیئر ڈاکٹر صاحب نے دوائی لکھی وہ پورے صدر کینٹ سے کہیں نہیں ملی اور اس ہسپتال سے بھی نہیں۔ بلاشبہ بہت اچھے ڈاکٹرزاور سٹاف بھی ہیں۔جو اچھے ہیں ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔شعبہ صحت میں ڈاکٹر اور غریب مریض، انسانیت اور دکھوں کے سب سے اہم رکن ہیں۔ ڈاکٹر ایک مسیحائی پیشہ سے وابستہ ہیں۔ ان کا کام خدمت ہونا چاہیے۔ پیسہ ،کروڑوں یا اربوں روپے ہوںسب کچھ یہاں رہ جانا ہے۔گاڑیاں اور عہدے یہاں رہ جائیں گے۔ انسانیت کی خدمت ساتھ جائے گی، جو قبر میں عذابوں سے محفوظ رکھے گی۔فیصلہ ہمارا ہے ،پیسہ یا خدمت۔۔حکومت، اداروں اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ دواء کی مفت دستیابی کے لیے مل کر کام کریں۔ اور ایسا نظام بنایا جائے کہ غریبوں کو مفت علاج میسر ہو۔ اس ضمن میں طریقہ کار کوبھی آسان کیا جائے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور سٹاف کو ہدایت جاری کی جائیں کہ چونکہ سرکاری ہسپتالوں میں اکثریت غریبوں ، بزرگوں اور ان پڑھ لوگوں کی ہوتی ہے، لہٰذا ان کے ساتھ پیارو محبت سے پیش آیا جائے تو اللہ اور اس کا حبیب ؐ بھی خوش ہوں گے۔ جب اللہ اور رسولؐ خوش ہو گئے، توہمارا کام بن جائے گا (عمران محمود 03225113689راولپنڈی)