سرکاری ملازمین اور بادشاہی شرارت
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بادشاہ اور اس کا وزیر شکار پہ نکلے تو ان کا گزر ایک گاؤں سے ہوا۔ایک درخت تلے انھیں جوتے نظر آئے۔وزیر نے بھاگ کر وہ جوتے اٹھائے اور کچھ دور جا کر پتوں تلے چھپا دیے۔بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو وزیر نے جواب میں کہا کہ اس نے شرارت کی ہے۔بادشاہ سچ میں بادشاہ تھا اسی لئے اس نے کہا کہ یہ شرارت نہیں۔شرارت یہ ہے کہ تم ان جوتوں میں اشرفیاں چھپا دو تاکہ جوتوں کا مالک بھی اس شرارت میں شامل ہو سکے۔ہمارے ہاں شرارت صرف لکیر پیٹنے کو کہا جاتا ہے تا کہ سانپ کو نقصان سے بچایا جا سکے سو ہر شاخ پر الو اور درخت کی جڑ میں سانپ لپٹا ہے اور ہم ہیں کہ لکیر پیٹتے جا رہے ہیں۔ وہ ملکی سلامتی کے مسائل ہوں یا عوامی بہتری کے اقدامات ، ترقی و بہبود کا جواز ہو یا تعلیمی اصطلاحات۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا چاؤ ایسا ہے جو چوکھا رنگ چھوڑتا ہے اور جس کے داغ آنے والی نسلوں سے بھی صاف نہیں ہو سکتے۔ کام جلدی میں بھی بہتر ہو سکتا ہے لیکن حقائق سے بے خبری لے ڈوبتی ہے اور ہم لکیر پیٹنے لگتے ہیں کہ جیل کے اندر موبائل کس نے پہنچایا۔ کیا کہیں یوں بھی کام ہوتا ہے اس کام کے لئے تھوڑا وقت چاہئیے توجہ اور محنت چاہئیے۔اِس محاورہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم جادو کرشمہ اور معجزہ کے طور پر ہی کامیابی چاہتے ہیں۔پلاننگ منصوبہ بندی وسائل کی فراہمی اور مسائل کا ادراک ہماری سوچ کس حصہ ہی نہیں۔ کرشمات کے لیے ریاضت اور تدبر درکار ہوتا ہے۔ یہ ریاضت کرونا کے دوران اساتذہ کر چکے ہیں اور ہمارے بے خبر منصوبہ سازہاتھی نکلنے کے بعد دْم باقی رہنے کی دہائی ایسے دیئے جا رہے ہیں جیسے مرغ بانگ دیتا ہے۔ مشتاق یوسفی کے الفاظ میں جب اور جہاں جی چاہے۔یہ تخیلی محاورہ کسی کام کا نہیں۔ اس لئے کہ ہاتھی نکل تو جاتا ہے مگر اْس کے نکلنے کے بعد دْم پھنسی رہ جائے ایسا ہوتا نہیں۔اس معنی میں یہ محاورہ ہماری سوچ کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔جس میں صرف لکیر پیٹی جاتی ہے۔یہ لکیر ان دنوں سی۔ٹی۔آئیز کی بھرتی میں نظر آ رہی ہے۔جب نصاب مکمل ہو چکے۔تعلیمی سال پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔اساتذہ نے کن دقتوں سے پڑھائی کا عمل جاری رکھا اور طالب علموں نے کس دل سے اس میں حصہ لیا اور کیسی کیسی رکاوٹوں کا سامنا ہوا ، یہ ایک الگ داستان ہے۔ابھی بھی کالجز، سکولز پوری طرح سے کھلے نہیں اور منصوبہ ساز ایک نئے دریا کو بہانے کے لیے چارہ سازی کر رہے ہیں۔ 45 ہزار تو گریڈ سترہ کی بھی تنخواہ نہیں۔پبلک سروس کمیشن پہ پی۔آئی۔اے کے پائلٹس کی طرح سوالیہ نشان اٹھایا جا چکا ہے اور اساتذہ کی تحقیر کے ذریعے انہیں عضو معطل کرنے کی کاوشیں جاری ہیں۔کہیں منصوبہ ساز طے کر رہے ہیں کہ امتحان نہیں ہو گا۔کہیں چیخ رہے ہیں کہ ایم اے ختم ہو جائے۔کہیں فیصلہ بے کہ بی ایس کے بعد ایم فل کے بجائے پی ایچ ڈی ہی ہو گی۔یہ کون لوگ ہیں جن کو علم ہی نہیں کہ نصابی عمل زینہ بہ زینہ ہوتا ہے اور استاد اور شاگرد اس کی بنیاد ہیں۔لیکن باہر سے ایک خلل دماغ آکر پرندوں کو شتر مرغ کے ساتھ دوڑ میں شامل کروا کے ان کا اعتماد اور صلاحیت مجروح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور ہم سمجھتے فہیں کہ عشق دماغ کا خلل ہے۔انتہائی معتبر اساتذہ کو ہر چاہ ماہ کے بعد قابلیت جانچنے کے فارم بھجوائے جاتے ہیں۔ان کی تنخواہ میں دس فی صد اضافہ بھی مشکل ترین امر اور خزانے پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان حالات میں یہ سی ٹی آئیز کی اختراع کو کیا بد دیانتی نہ سمجھا جائے۔یہ کن کے جوتوں میں اشرفیاں رکھی جارہی ہیں ؟ کئی کالجز میں جہاں ضرورت ہے۔ ایک سیٹ بھی نہیں۔ ارباب اختیار مورچہ بند بیٹھے ہیں اور سرکاری اساتذہ کنوئیں میں ڈول ڈالے منتظر ہیں کہ کب چارٹر آف ڈیمانڈز کے مطابق مراعات کے نوٹیفکیشن نکلیں گے۔اس ضمن میں سرکاری ملازمین کی تمام تنظیموں کے قائدین کا اسلام آباد میں مشترکہ اجلاس اور احتجاج بھی ہوا جس میں نوائے اساتذہ کا کردار قابل تحسین ہے۔جیت ہار سے بے نیاز نوائے اساتذہ کے قائدین ندیم اشرفی کے ساتھ ہر اہم مسئلہ کی نشان دہی اور آواز اٹھانے کے لیے موجود رہتے ہیں۔لیکن اب اساتذہ مذاکرات مذاکرات کے کھیل سے تھک چکے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ تمام ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہوں میں شامل کر کے پے سکیل ریوائز اور مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔
اور یوٹیلیٹی الاؤنس، سول سیکرٹریٹ الاونس، ایگزیکٹو الاؤنس ٹیکینکل الاؤنس و دیگر الائونسز مساوی بنیادوں پر پاکستان کے تمام سرکاری ملازمین کو بلاتفریق ایک جیسے دئیے جائیں اور گروپ انشورنس کی رقم ریٹائرمنٹ کے موقع پر بلوچستان اور کے پی کے کی طرز پر پاکستان کے تمام سرکاری ملازمین کو بلاتفریق واپس کی جائے۔ حکومت اور بادشاہت سے تقاضا ہے کہ جوتوں میں اشرفیاں چھپانے کی شرارت کا چلن روا رکھا جائے تو شاید غریب عوام کو کچھ ریلیف ملے ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی شرارتیں عوام کی زد سے دور ہی رکھی جاتی ہیں۔