پاکستان کا صنعتی پہیہ گھوم رہا ہے
دو ماہ کے دوران عجیب خبریں سننے کو مل رہیں تھیں کہ پاکستان کا صنعتی پہیہ نہ صرف چلنے لگا ہے بلکہ بھاگ رہا ہے اور لگتا تھا کہ یہ بھی شاید کوئی اعداد و شمار کی ہیر پھیر ہے جیسے کہ سٹاک ایکسچینج میں کیا جاتا ہے ویسے ہی ، پہلے غبارہ پھلایا جائے گا پھر اس میں سے ہوا نکال دی جائے گی ۔ مگر اس دفعہ کچھ مختلف ہوا ہے دراصل حکومت کی کرونا پالیسی کام کر گئی اور پاکستان نے جیسے کرونا کو شکست دی پوری دنیا اس کی معترف ہے ۔ وہیں حالات بہتر ہوتے ساتھ ہی عمران خان نے تمام صنعتوں کو اوپر اٹھانے کے لئے اور کرونا سے ہونے والے نقصان کے ازالہ کیلئے ٹیکس میں ری بیٹ ، بجلی کے بلوں میں چھوٹ ، خام درآمدی سامان پر ٹیکس میں واضح کمی نے صنعت کاروں کو کُھل کر کھیلنے کا موقع دیا اور پھر ہمیں دیکھنے کو ملا کہ فیصل آباد جو پاکستان کی ٹیکسٹائل کا مرکز ہے وہاں مزدور کی کمی دیکھنے کو ملی ، اس کی دوسری وجہ بھارت اور بنگلہ دیش میں کرونا کی بگڑی ہوئی صورتحال ہے اور وہاں کی حکومتیں بظاہر کرونا سے مقابلہ کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں اس لئے وہاں کی صنعتیں بدخالی کا شکار ہیں اور دوسرا بھارت میں کسانوں اور مزدوروں کا احتجاج جس نے مودی سرکار کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا پول کھول دیا اور اس کے نتیجے میں بھارت میں زیادہ تر صنعتیں بند پڑی ہیں ۔ اس سب کا فائدہ پاکستان اور ہمارے صنعت کاروں کو ہو رہا ہے اور حکومت کی بروقت پالیسیوں کو تبدیل اور بہتر کرنے سے آج یورپ اور امریکہ میں ’’Made in Pakistan‘‘کا چرچا ہے اور حالیہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مہینے میں پاکستان کی بڑی صنعتوں کی شرع نمو 14.5فیصد رہی جو کہ ایک بہت ہی مثبت اعشاریہ ہے۔اس کے ساتھ ہی گزشتہ سال پاکستان میں بہت ساری نئی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں بھی میدان میں آئیں اور یہ اس بات کا اعادہ ہے کہ جلد ہی پاکستان بھی گاڑی سازی کی صنعت میںنہ صرف خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ ان کو ایکسپورٹ کر کے خطیر زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور اس کا ایک ثبوت اب پاکستانی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی میڈ اِن پاکستان گاڑیاں ہیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے تین بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری رہی ہے جو کہ باہر سے پرزے امپورٹ کر کے یہاں ان کو صرف جوڑ رہے تھے جس سے ایک تو گاڑیوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور دوسرا یہ کمپنیاں ابھی تک پاکستان میں گاڑیاں تیار نہ کر کے بیشتر منافع بھی باہر بھیج رہی ہیں مگر ان کے مقابلے پر نئی کمپنیوں نے اپنی بہتر ، دیرپا، جدید سہولتوں سے آراستہ گاڑیاں متعارف کرائی ہیں جس کے بعد ان پرانے ٹھیکیداروں کی لٹ مار سکیم زیادہ نہیں چلے گی۔
آج کل اسی حوالے سے ایک خبر جو زیرِ گردش ہے وہ نئی ’’آٹو پالیسی 2021-26‘‘ کے حوالے سے ہے جس میں حکومت بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے حوالے سے خصوصی مراعات دینے کا ارادہ رکھتی ہے تا کہ ملک میں ایندھن کی کھپت میں کمی لائی جا سکے اور اس کے علاوہ سستی اور معیاری چھوٹی گاڑیوں کی پاکستان میں ہی تیاری کے حوالے سے بہت سے نکات سامنے آئے ہیں جن کا مقصد ایک عام شہری کہ لئے گاڑی کی خرید کو ممکن بنانا ہے ۔بلا شبہ اگر ایسا ہوتاہے تو کام قابلِ ستائش ہو گا اور عام لوگوں کو براہ راست اس کا فائدہ ہو گا۔ اب جہاں حکومت گاڑیوں کی یہ پالیسیاں بنا رہی ہے وہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان گاڑیوں میں مسافر کی حفاظت کے انتظامات کو یقینی بنائے اور گاڑیو ںمیں ائیر بیگز کو لازم قرار دیا جائے اور اس کے ہمراہ دیگر نئے حفاظتی فیچرز جن کی بدولت حادثات میں کمی واقعہ ہو سکے ان کو گاڑیوں میں لازمی لگوائے۔ اس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے نظام کو بھی مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ اسی سال پنجاب میں یونیوسل نمبرز کا اجراء شروع ہوا اور اب پورے پنجاب میں ایک جیسے نمبرز جاری کئے جائیں گے اس کے بعد لاہور کے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا بوجھ یقینی طور پر کم ہوا ہے اور اب گاڑی کو پنجاب میں کہیں سے بھی رجسٹر کرایا جا سکتا ہے اور ٹوکن ٹیکس بھی جمع کرایا جا سکتا ہے اور مرکزی نظام اور یونیورسل نمبر کی وجہ سے اب دیگر شہروں کے صارف کی گاڑی صرف لاہور سے باہر کے نمبر کی وجہ سے ڈی ویلیو نہیں ہو گی۔ اس میں کیا ہی بہتر ہو کہ پورے پاکستان میں یہ ایک ہی نظام کے تحت رجسٹر ہوں اور جیسے پنجاب کے ناکوں پر کراچی یا دیگر دور کے شہروں کی گاڑیوں کو روکا جاتا ہے اس سب سے جان چھوٹ سکے اور ملک میں گاڑیوں کی خرید و فروخت میں آسانی اور شفافیت آئے۔اللہ کرے کے یہ سال ملک پاکستان کے لئے خوشیوں اور آسانیوں کا سال ہو اور پاکستان اپنے ہر آنے والے نئے چیلنج سے مقابلہ کر کے آگے گزرے۔ ہمیں اپنی صنعتوں کو ترقی دینی ہو گی اور اس کے لئے صرف کسی خاص دوست کو نوازنے کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک کو سنوارنے کے لئے پالیسیاں بنائی جائیں۔ملک کا خزانہ شاہی خاندان کے دوروں اور عشائیوں کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو توان شااللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان خطے میں ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر ابھرے گا۔