این جی اوز کا کردار
بھوک کی حالت میں چوری درست قرار ۔ اشد ضرورت کے تحت خوراک کی چھوٹی مقدار چوری کی جاسکتی ہے۔ یہ فیصلہ کسی افریقی ملک میں ہو ا نہ ہی پاکستان میں ۔ دنیا کے انتہائی امیر مروجہ دور کی تمام تر جدید سہولیات سے لیس ملک "اٹلی" کی اعلیٰ ترین عدالت نے کیا ۔ دنیائے فیشن ۔ جدید طرز زندگی کا موجد ۔ تحریر کا مقصد قطعاً نہیں کہ ایسا اِدھر بھی ہو ۔ مقصود یہ ہے کہ ریاست ماں مثل ہے تو "اٹلی" میں واقعتا ایک ماں نے شدید مشکلات سے مجبور لوگوں کے لیے سخت ترین قانون کی موجودگی کے باوجود سہولت فراہم کر دی۔
لمحہ فکریہ کہ تمام تر تمدنی ترقی کے باوجود بے روز گاری کا حجم بڑھ رہا ہے اِس کے نتیجہ میں بھوک ۔ ننگ کے اعداد شمار ہو شربا حد تک اُوپر جا چکے ہیں ۔ خالی پیٹ اور نظر کو" گوبر "بھی ہرا گھاس معلوم ہوتا ہے ۔ ہماری بدقسمتی کہ وسائل کی انتہا پر خالی پیٹ اور بھوکی نظر والے براجمان ہو گئے ۔ اتنا لوٹا اتنا لُوٹا کہ کالج ۔ سکول کا بچہ بھی دہائی دے رہا ہے ۔ ہماری قسمتوں ۔ مقدر پر قابض اشرافیہ کی وہی خبریں ۔ وہی انداز ۔ نہ الفاظ تبدیل ہوئے نہ شرم کھانے میں کوئی کجی دیکھی ۔ نہ حکمران بدلے ۔ نہ منشور۔ اعلانات پر عمل درآمد دیکھا ۔ لمحہ موجود کے پاکستان کی تو صورتحال انتہائی حیران کن ہے۔ تحصیل سے ضلع ۔
صوبے سے وفاق تک ہر جگہ " این جی اوز" کا راج ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو قوم سے (اپوزیشن میں ہوں تب بھی) چند گھنٹوں کے دورانیہ میں کروڑوں روپے اکٹھے کر لیتے ہیں غریب کے نام پر ۔ اُس قوم سے نجانے کِس کِس مد میں جبراً وصولی کی جارہی ہے۔
جو حکومت میں نہیں ہیں ۔ سماجی سطح پر مصروفِ عمل ہیں وہ بھی اپنے پروگرامز کا بڑا بوجھ عوام پر ڈالتے ہیں ۔
کچھ سالوں سے عجب تماشا چل رہا ہے ۔ "این جی اوز" نے لوگوں کو گھیرنے (بلکہ لبھانے کا لفظ زیادہ موزوں رہے گا) کے لیے چھوٹی بچیوں کو ملازمت پر رکھ لیا ۔ کِسی تقریب میںچلے جائیں تو ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے سارے غریبوں کا درد صرف یہی بانٹ رہے ہیں ۔ شاندار قناتیں ۔ بڑے بڑے فانوس ۔ درجنوں کے حساب سے انواع و اقسام کے کھانوں سے اٹی پڑی میزیں ۔
آدھے سے زائد کھانا پلیٹوں میں بچا ہوا ہماری غریب نوازی کو سلام کرتا معلوم ہوتا ہے۔ عوام کے پیسوں سے این جی اوز کے دیو ہیکل قلعے تعمیر کرنے والے بزنس کلاس میں سفر کرتے اور ایلیٹ گاڑیوں میں گھومنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔
بہت مرتبہ دیکھا ۔ سُنا ۔ سوچیئے ہمارے جیسے لوگوں کو معلومات مل سکتی ہیں تو حکومت اور ریاستی اداروں کے پاس تو نہ افرادی قوت کی کمی ہے نہ ہی ثبوت اکٹھا کرنے کی کمی ۔ ہم نے" اللہ کریم" سے اتنا نہیں مانگا جتنا لوگوں سے مانگا ۔ مانگا بھی کیسے ؟ درجنوں فونز ۔ سینکڑوں برقی پیغامات ۔ کِسی نے فون سن لیا تو حد کر دی خوشامد کی ۔ جھوٹی تعریف کی۔ دینے والے اور لینے والے ۔ چیک یا نقدی کِسی کا بھی تبادلہ تصویر کے بغیر ممکن نہیں ۔
زکوۃ ایک لازمی ۔ ضروری شرعی حکم ۔دینے کے لیے دکھاوا کیسا ؟ یہ تو مال کی میل ہے ۔ لمحہ موجود کی تصویر بڑی تکلیف دہ ہے ۔ تاجر سے لیکر سرکاری افسران کی بیگمات۔ تحصیل سطح کے سیاستدان سے صوبائی ۔ وفاقی عہدے داران تک سبھی کی "این جی اوز" ہیں ۔ حقیقتاً اِسوقت پاکستان پر" این جی اوز "کی حکمرانی ہے۔ بلاشبہ بہت ساری تنظیمیں
فلاح آدمیت کے فلسفے پر کا ربند واقعی قابل ذکر خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ وہیں سینکڑوں صرف کاغذات پر زندہ ہیں ۔ ہر تیسرا بندہ یا بندی کِسی نہ کِسی تنظیم کا بانی ۔ صدر ہے جس کی واحد شناخت اُس کی جیب یا پرس میں موجود پرنٹ شدہ کارڈ ہے۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو بھولے سے کوئی خود بُلوالے یا پھر وہ کِسی کے توسط سے کِسی فنکشن ۔ تقریب میں چلے جائیں وہ اپنے کارڈ میں الحاق کا اضافہ لگا لیتے ہیں ۔ خدمت انسانیت کے نام پر جعل سازی ۔ فراڈ۔ کرپشن اور دھوکہ دہی کا ایک منظم اور بھیانک دھندہ عروج پر ہے۔
ہر گزرتا دن غربت اور جہالت میں اضافے کی خبر دیتا ہے ۔ ہمیشہ دکھ رہا کہ جس تعداد میں "این جی اوز" مصروف عمل ہیں ۔اُس کے مطابق نتائج کبھی نظر نہیں آئے ۔ اصل کے علاوہ جعلی تنظیموں کے پاس بھی کم از کم کروڑوں روپے ہیں۔ اب حکومت کا کام ہے کہ وہ گلی محلوں میں کُھلنے والے بیکار سکولوں مثل اِن جعلی تنظیموں کے خلاف موثر ۔ فوری ایکشن لے ۔ اس کے علاوہ اُن تمام "این جی اوز" کا بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے جو کام تو کر رہی ہیں درجنوں اداروں کے نام پر مگر اُن کی سروسز محدود حد تک ہیں ۔
دیکھا جائے کہ وہ جمع کردہ پیسہ کہاں خرچ کر رہی ہیں۔ زکوۃ ۔ صدقات ۔ خیرات خالصتاً شرعی امور ہیں جن کے مصارف طے شدہ ہیں ۔اِن میں کوئی بھی فرد ۔ ادارہ حتیٰ کہ حکومت تک کوئی تحریف ۔ ترمیم نہیں کر سکتی ۔
مزید براں ایسے پیسوں کو بینکوں میں رکھ کر سود کمانا تو از حد ظلم ہے۔ کیونکہ سود حرام ہے اور حرام ہی رہے گا اور" اللہ اور رسول ﷺ" نے اِس کو اپنے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ اب دیکھیں کون ایسی جسارت کر سکتا ہے؟
جسارت تو کسی کو نہیں کرنی چاہیے ۔ جو حکم واضح ہے قرآن میں ہے اُس میں کوئی شبہ نہیں کوئی شک نہیں اور اس کا کوئی متبادل بھی نہیں ۔ ہم اپنے دلوں کی تسلی کے لیے اپنے نفس کے ہاتھوں محصور ہو جاتے ہیں ۔ جس سے بھی بات کرو وہ یہی کہتا ہے کہ پھر کیا کریں ؟ نعوذ باللہ ایک واضح حکم کی موجودگی میں اِس طرح کے سوال کا کوئی جواز نہیں بنتا۔’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہمیں حرام چیزوں سے محفوظ رکھیں اور دعا ہے کہ وہ ہماری زندگیوں کو پاکیزہ اور ایمان پرور بنا دیں۔آمین۔
٭…٭…٭