سانحہ مچھ اور را کا مکروہ چہرہ
بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے قریبی علاقے مچھ میں ہزارہ برادری کے گیارہ افراد کو نا معلوم افراد نے شہید کر کے اس وقت پاکستان میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی ۔ مچھ میں ہونے والے واقعے کی ذمہ داری اگرچہ دولت اسلامیہ یعنی داعش نے قبول کر رکھی ہے لیکن اس واردات کے تانے بانے ہمسایہ ملک بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے واضح طور پر جڑتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ کیوں کہ ایک تو خفیہ ایجنسیوں کو اس واقعہ سے قبل اس کی سن گن مل چکی تھی کہ را اپنے گماشتوں کے ذریعے بلوچستان میں کوئی ایسی واردات کرنا چاہ رہی ہے جس سے ملک کے حالات خراب کئے جائیں اور خصوصا بلوچستان میں کی جانے والی کارروائی کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا جا سکے۔ اس سے قبل را کے ہی ہینڈلرز نے کینیڈا میں بلوچستان کی انسانی حقو ق کی رہنما کریمہ بلوچ کو قتل کیا اور پھر سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا میں یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی جیسے اس واردات میں پاکستان کا ہاتھ ہے تا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش رچائی جا سکے۔
یہ تو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی بر وقت کارروائی اور موثر جوابی پروپیگنڈے کا اثر تھا جس کی وجہ سے بھارت کو کریمہ بلوچ کے معاملے میں منہ کی کھانا پڑی اور کھل کر کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔ بلوچستان میں ماضی میں بھی ہزارہ برادری کے افراد شہید ہوتے رہے ہیں اور ماضی میں ایسی کئی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں کہ ان واقعات میں را فنڈنگ کرتی ہے تا کہ ایک تو بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسندوں کی مدد بھی ہو اور دوسرا فرقہ واریت کو پھیلایا جا سکے اور دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان میں ایک مخصوص کمیونٹی کی نسل کشی جا ری ہے ۔
اکتوبر 2020 میں کراچی میں ہی ممتاز عالم دین مولانا ڈاکٹر عادل خان کا قتل بھی را کی جانب سے پھیلائے گئے جال کا ہی حصہ تھا تا کہ اس سے ملک میں فرقہ واریت کی بجھتی ہوئی آگ دوبارہ سلگائی جا سکے وہ تو حکومتی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں خصوصا پاک فوج کی بر وقت حکمت عملی سے یہ آگ شعلے کی جانب لپکنے سے قبل ہی بجھا دی گئی ۔
مچھ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کی جانب سے بار بار وزیراعظم کو بلانا اگرچہ ان کا بنیادی حق ہے اور ریاست کے سربراہ کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ملک میں جہاں کہیں نا انصافی یا ظلم ہو ان کے دکھوں کا مداوا کرے اور وزیراعظم عمران خان یہ سب کچھ کرتے بھی ہیں لیکن ان کا ہزارہ برادری کے احتجاج میں نہ جانا بادی النظر میں درست اقدام نہیں تھا خفیہ اداروں کی رپورٹس اور را کی ریشہ دوانیاں دیکھیں تو یہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عقلمندی کا مظاہرہ ہے کیوں کہ اس دوران اگر کوئی انہونی ہو جاتی تو ملک اس کا متحمل نہ ہو پاتا گا ۔پی ڈی ایم اور اس میں شامل جماعتوں نے بھی اس نازک موقع پر اپنی سیاست چمکانا ضروری سمجھا اور ہزارہ برادری کے دھرنے میں شریک ہو کر میتوں کے سامنے سیاست کرنا اپنا فرض جانا۔ کیا مسلم لیگ ن یا مریم نواز بتا سکتی ہیں جب ان کے دور حکومت میں سو سے زائد ہزارہ برادری کے افراد شہید ہوئے تو تب کیا نوازشریف ان کے دھرنے میں گئے ان کیلئے تسلی کے دو لفظ بھی ادا کئے ؟؟۔ مریم نواز اور پی ڈیم میں شامل جماعتوں کے امیر سربراہان نے تقریریں تو جھاڑیں کو انہیںتوفیق ہوئی کہ ان لاچار لوگوں کیلئے اپنی دولت میں سے کچھ امداد کا اعلان ہی کر دیتے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں موت کو بھی سیاست کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہزارہ برادری کے ان گیارہ افراد کاشہید ہوجانا سیکیورٹی کا ناکام ہونا ہے یا ہمارے خفیہ اداروں کی ناکامی ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے کیوں کہ پچھلے کچھ ماہ میں ہماری خفیہ ایجنسیوں نے بلوچستان میں متعدد دہشت گردی کی وارداتیں اپنی جان دے کر ناکام بنائیں ہیں اور نا مساعد حالات میں دشمن کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا جس کے بعد ہی را نے ہائی ویلیو ٹارگٹ کی بجائے عام مزدوروں کو نشانہ بنایا ۔
اسی بلوچستان سے ہی بھارت کا بدنام زمانہ دہشت گرد کلبھوشن بھی ہماری خفیہ ایجنسیوں نے گرفتار کیا تھا جو بلوچستان میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں مطلوب رہا ۔کلبھوشن خود اعتراف کر چکا ہے کہ کس طرح وہ بلوچستان میں علیحدگی کا بیچ بونے کی کوشش کررہا تھا جسے ہماری خفیہ ایجنسیوں کی شبانہ روز محنت نے ناکام بنا کر بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔
دوسرا بلوچستان میں ہی چین کے تعاون سے سی پیک کے تحت ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ،سڑکیں بن رہی ہیں اورگوادر بندرگاہ تعمیر ہو رہی ہے جس کے ذریعے چینی مال یورپ کی منڈیوں تک پہنچے گا اور اس کا فائدہ پاکستان کی معیشت کو ہو گا۔ سی پیک اور گوادر بندر گاہ منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ہی بھارت نے ایران کے ساتھ مل کرچاہ بہار بندر گاہ کا منصوبہ شروع کیا لیکن اب ایران نے اس منصوبے سے بھی بھارت کو نکال دیا ہے جس کا غم بھارتی کی خفیہ ایجنسی عام مزدوروں کو شہید کروا کر لے رہی ہے تا کہ دنیا میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ پاکستان محفوظ ملک نہیں ہے یا یہاں کسی کا جان و مال محفوظ نہیں ہے لیکن جب تک پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں او رپاک فوج موجود ہے تب تک بھارت کی اس طرح کی تمام کوششیں ان شا ء اللہ ناکامی کے گڑھے میں دفن ہوں گی اور پاکستان ترقی و کامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہو کر بھارت کا منہ چڑاتا رہے گا۔
٭…٭…٭