حکومت اور حکمرانی
1967کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران جب عربوں کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا تو دنیا کے عسکری تجزیہ کار حیران رہ گئے کہ اسرائیل کے اردگرد تمام عرب ممالک مل کر بھی ایک چھوٹے سے نو زائیدہ ملک اسرائیل سے ہار گئے۔بد قسمتی سے اسرائیل سے مقابلہ کرنیوالے تمام عرب ممالک مسلمان تھے۔ اس موقعہ پر ایک امریکی جنرل نے کلاسک کمنٹ دیا تھا ’’مسلمان نہ تو اچھے حکمران ہیں نہ اچھے منتظم‘‘ کمنٹ تھا تو مسلمانوں کی جنگی استعداد کے حوالے سے لیکن جب ہم ارد گرد موجودہ مسلمان حکمرانوں کا جائزہ لیتے ہیں چاہے وہ بادشاہ ہوں یا جمہوری حکمران سب یہی کچھ ہیں۔ کسی حکمران یا کسی ملک میں یہ صلاحیت نہیں کہ کسی مغربی ملک کے سامنے کھڑا ہو سکے یا اسرائیل کا قصہ تمام کر سکے یااپنے ملک کو فلاحی مملکت بنا سکے بلکہ اسرائیل سے ڈرکر بہت سے عرب ملکوں نے اب اسے نہ صرف تسلیم کر لیاہے بلکہ اسے اپنا راہنما مان لیا ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ آئندہ مشرق وسطیٰ کی سیاست کا رخ اسرائیل کی مرضی سے متعین ہوگا۔
معلوم نہیں مسلمان حکمرانوں کا کیا مسئلہ ہے کہ یہ اپنے ملک میں اچھی حکمرانی دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت تو عوام کی ماں سمجھی جاتی ہے جس کا کام عوام کو اپنے بچوں کی طرح ہر سکھ دینا ہے۔ انکے مسائل کا حل نکالنا ہے انکے دکھ درد میں انکے پاس کھڑا ہونا ہے۔ انہیں مصائب سے نجات دلانا ہے۔ تمام حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے تو اسی قسم کے وعدے کرتے ہیں۔ شاید انکی نیت بھی ٹھیک ہوتی ہو۔ خدمت کا جذبہ ہی کار فرما ہو مگر مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب یہ لوگ اقتدار میں آنے کے بعد بالکل ہی بدل جاتے ہیں۔ یہ ایسی ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جو خود انکے زوال کا سبب بنتی ہیں۔ پھر انہیں پچھتانا پڑتا ہے۔ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے کم از کم ہمارے ملک میں یہی کچھ ہورہا ہے ۔ ہر حکمران بڑے بڑے دعوے کرکے اقتدار تک پہنچتا ہے مگر اقتدار میں آکر ایسی راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے جو بالآخر انہیں اقتدار سے باہر لے جاتی ہے اور بعض تو بہت ہی افسوسناک انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔ پاکستان کو فخر ایشیاء ، دختر مشرق امیر المومنین اور قائد اعظم ثانی جیسے لیڈرز نصیب ہوئے لیکن سب کی اپنی کارکردگی انہیں اپنے افسوسناک انجام کی طرف لے گئی۔
آئیں ذرا موجودہ حکومت پر نظر ڈالتے ہیں۔ عمران خان ایک قومی کھلاڑی سے قومی لیڈرشپ تک پہنچا ہے۔ اس نے کئی سال اقتدار کیلئے کوشش کی اور محنت کی۔ بہت سے لوگ اس بات پر مطمئن ہیں کہ اس نے دو خاندانوں کے بیس سالہ وراثتی اقتدار کو توڑ کر ایک نئی مثال قائم کی۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں وہ ایماندار ہے محنتی ہے اور سب سے بڑھ کر قوم کے ساتھ مخلص ہے۔ سب خصوصیات قابل تعریف ہیں لیکن اقتدار میںآکر وہ بھی اسی راہ پر چل نکلا ہے جس پر اسکے پیشروگامزن تھے۔ ظاہر ہے اسکا نتیجہ بھی پھر اسی قسم کا نکلے گا۔ حکومت کا تقاضا ہے کہ عوام بچوں کی طرح ہیں۔ انہیں اپنے بچوں والا پیار دیں مگر افسوس کہ حکومت کے تقاضے کے برعکس حکمران وہ کچھ کر رہے ہیں جو قوم کو قابل قبول نہیں۔ یہ بلوچستان کے مچھ کا واقعہ ہی لے لیں۔ ہزارہ برادری کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ یہ ظلم صرف اب ہی نہیں بلکہ 2011 سے اس قبیلے کیخلاف جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ان لوگوں نے دھرنا دیا تھا تو رحمن ملک صاحب جو اس وقت کے وزیر داخلہ تھے نے ان لوگوں کے ساتھ بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے آرمی چیف بھی انکے دھرنے میں پہنچے تھے اور انہیں حفاظت کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ یقین دلایا تھامگر افسوس کہ اس حکومتی وعدے پر عمل نہ ہوا۔ وہ آج بھی ظلم اور دہشتگردی کا اسی طرح ٹارگٹ ہیں جس طرح ماضی میں تھے۔ ان کا ہمدرد یا پرسان حال آج بھی کوئی نہیں۔ آخر کیوں؟ اس ظلم سے تنگ آکر پہلے بھی اس قبیلے کے کھاتے پیتے بہت سے لوگ یہاں سے بیرون ملک ہجرت کر چکے ہیں۔ حکومت توشاید ایسا ظلم اور نا انصافی قطعاً نہیں چاہتی مگر حالات کے تحت حکمران یا تو بے حس ہیں یا نا اہل جو حالات کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
یہ ظلم جو ہوا حکومتی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس واقعہ سے ایک ہفتہ پہلے ہرنائی میں ہماری ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ ہوا اور سات جوان شہید ہو گئے۔ ان دونوں واقعات میں تاحال نہ تو دہشتگرد پکڑے گئے نہ اُن کا پتہ چلا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کاروائیاں ہمارا ازلی دشمن بھارت کر رہا ہے۔ بلوچستان میں دہشتگردی زوروں پر ہے۔ ہر ہفتے کسی نہ کسی شکل میں سانحات رونما ہو رہے ہیں۔ اکثر ہدف فوجی جوان ہیں۔ اس سے تویہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سراغرساں ایجنسیاں وہاں کامیاب نہیں ہیں جو پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے واقعات حکومت کیلئے Break یا Makeکی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں۔ ایک مستعد اور عوامی خیر خواہ حکومت سب سے پہلے ان واقعات پر توجہ دیتی ہے۔ حکمرانوںکا فرض ہے کہ وہ مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں انکے غم میں شریک ہوں۔ مگر افسوس موجودہ حالات میں حکمرانوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا بلکہ بے حسی دکھائی ہے۔ جس دن یہ المناک واقعہ رونما ہوا تھا وزیر اعظم کا فرض تھا کہ وہ فوری موقعہ پر پہنچتے اور ان مظلوم خاندانوں کے غم میں شریک ہوتے۔ اس سے ان خاندانوں کی دلجوئی ہوتی اور وزیراعظم کیلئے عزت و احترام کا جذبہ بھی بلند ہوتا۔ عوام کو احساس حفاظت ہوتا۔ مگر افسوس کہ نجانے کیا وجوہات تھیں جنہوں نے وزیراعظم کو باندھے رکھا اور کوئٹہ نہ جانے دیا۔ مظلوم خاندانوں نے کئی دن اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر خون کرنے والی کوئٹہ کی سردی میں خواتین بچوں سمیت دھرنا دیا۔ کئی دنوں تک یہ دھرنا جاری رہا اور لاشیں یونہی سڑکوں پر دھری رہیں جو کہ ان شہداء کی بھی بے حرمتی تھی۔شہداء کے ساتھ یکجہتی کے طور پر حکومت کے خلاف پورے پاکستان میں دھرنے بھی ہوئے اور احتجاج بھی مگر وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ظلم پر مزید ظلم یہ کہ وزیراعظم کے نمائندے زلفی بخاری نے ایک بے حس سا بیان دے کر مظلوم خاندانوں کو مزید سوگوار کیا جس کی سارے ملک میں مذمت ہوئی۔ اس سے اپوزیشن کو موقعہ ملا تو نوجوان جوڑا وہاں پہنچ گیا اور پھر انہوں نے خوب حکومت کو بد نام کیا۔
اسی طرح ایک واقعہ اسلام آباد میں رونما ہوا جہاں بے حس یا نا اہل پولیس نے ایک بے گناہ نوجوان اسامہ ندیم ستی کو دہشتگرد قرار دیکر گولیوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ تو کھلم کھلی دہشتگردی تھی۔ پولیس جو عوام کی محافظ ہے وہ خود ہی اگر بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلانا شروع کر دے تو اسکی سزا حکمرانوں کو ملنی چاہیے۔ مقتول نوجوان کے والد نے ٹھیک کہا ہے کہ وزیراعظم نیا پاکستان تو نہیں البتہ نئے قبرستان ضرور بنا رہے ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کے بیانات پر غور کرنا چاہیے۔ ایسے بیانات اور اقدامات تو حکمرانوں کیخلاف نفرت کا اظہار ہیں۔اگر اب بھی حکمران عوام سے کسی قسم کی ہمدری کی امید رکھتے ہیں تو یہ یقینا ان کی سخت غلطی ہے۔ حکمران اپنی گراوٹ کا خود بندوبست کر رہے ہیں۔ حکومت جو کچھ نہیں چاہتی حکمران وہی کچھ کر نے پر مصر ہیں۔ اللہ پاکستان کا نگہبان ہو!