اسلام آباد کے قدرتی حسن کے تو سب معترف ہیں جو یہاں رہتے ہیں ان کا کہیں اور دل نہیں لگتا، پہاڑ، سبزہ، حسین قدرتی مناظر سب کچھ آنکھوں کو اتنا بھلا لگتا ہے کہ گھومتے ہوئے وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ کشش تو ایک عام انسان کے لیے ہے جبکہ اسلام آباد میں اقتدار کی کشش بھی ہر وقت ملک کے سینکڑوں طاقتور افراد کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسلام آباد میں رہنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتیں ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔ ان دنوں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل سیاسی جماعتوں کا ہدف بھی اسلام آباد ہی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کی خوش قسمتی ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ شیخ رشید ہیں یوں انہیں تصادم کے لیے یا عوام کو متحرک کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی یہ کام حکومت کی طرف سے شیخ رشید خود کر دیں گے شیخ صاحب کے ہوتے ہوئے عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کو کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ شیخ صاحب تو اتنے باصلاحیت ہیں کہ اگر کہیں آگ بجھ رہی ہو، صلح ہو رہی ہو، معاملات حل ہو رہے ہوں تو وہاں بھی باآسانی تصادم کروا دیں گے۔ بات اسلام آباد کے حسن اور کشش کی ہو رہی تھی شہر اقتدار کے حسن کو شیخ کی موجودگی میں مستقل خطرات تو ہیں شہر میں امن و امان کی بگڑتی حالت وزیر داخلہ کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے بعد اب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے لانگ مارچ نے بھی اسلام آباد کا رخ کرنا ہے ان حالات میں شیخ رشید پر کام کا دباؤ بھی بڑھے گا اور دباؤ میں وہ مزید غلطیاں بھی کر سکتے ہیں سردست ان کی طرف سے زبانی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اپنے سیاسی تجربے کی روشنی میں وہ اپوزیشن کو مفید مشورے بھی دے رہے ہیں اب ان مشوروں کو کوئی مفید سمجھنا چاہتا ہے تو سمجھے نہیں سمجھنا چاہتا تو نہ سمجھے لیکن شیخ رشید نے اپنے سیاسی شعور کے مطابق مشوروں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو تازہ مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عالم دین ہیں انہیں اسلام آباد کے بجائے اسلام کی طرف دیکھنا چاہیے۔ شیخ صاحب شاید بھول چکے ہیں کہ مولانا اور اسلام آباد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلام کی طاقت پر ہی تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے ہیں ان کے مدارس سے تعلق رکھنے ہزاروں طلباء اسلام کے نام پر ہی تو جمع ہوتے ہیں اور اسلامی نعرے لگاتے ہوئے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جمع ہوتے ہیں۔ وہ اس ملک کے شہری ہیں انہیں بھی ایوان اقتدار پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی عام شہری کا ہے۔ اس لیے مدارس کے نظام سے الگ سمجھنا یا انہیں نظام سے دور رکھنا یا ہر وقت انہیں کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھتے رہنا اچھا رویہ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے انکی سیاسی سوچ سے ان کے نظریے اور سیاسی طرز عمل سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے پاکستانی ہونے سے تو انکات ممکن نہیں ہے۔ انہیں ماننے والوں کی بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ ہے ان حالات میں وزیر داخلہ کی طرف سے ایسے طنزیہ جملوں سے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ ویسے یہ سوچ بھی تبدیل ہونے کی ضرورت ہے کہ مدارس کے طلباء یا عالم دین کا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو معیوب سمجھا جائے یا پھر یہ جائے کہ انہیں صرف مساجد میں ہی بیٹھے رہنا چاہیے یا خانقاہوں، درباروں اور درسگاہوں تک ہی محدود رہنا چاہیے دیگر شہریوں کی طرح انہیں بھی زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملنے چاہییں۔ جہاں تک تعلق مولانا فضل الرحمٰن کا ہے بدقسمتی سے انہوں نے اپنے کردار سے دیگر مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں کیونکہ مولانا نے ہمیشہ اقتدار کی سیاست کی ہے ان کی سیاست میں نظریات کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ ان کا واحد نظریہ ہر حال میں اقتدار اپنا حصہ لینا ہے کاش کہ وہ نظریات کی سیاست کرتے اپنے مریدین اور طلباء کی بہتر سیاسی تربیت کرتے دیگر مذہبی پس منظر رکھنے والی اہم شخصیات کو بھی نظریاتی سیاست کی طرف لے کر آتے لیکن انہوں نے یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے ہر وقت اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی۔ اقتدار حاصل کرنے کے کیے انہوں نے ہمیشہ مصلحت سے کام لیا، سمجھوتے کیے، سیاسی قلا بازیاں کھائیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان کے ساتھ سیاسی جماعتیں تو چل رہی ہیں لیکن کوئی مذہبی سیاسی جماعت مولانا فضل الرحمن پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی بھی مولانا کی سیاسی قلا بازیوں سے تنگ آ کر راہیں جدا کر چکی ہے۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے مولانا فضل الرحمن کے اس طرز عمل کی وجہ سے ملک میں مذہبی سیاسی جماعتوں یا مذہبی پس منظر کے ساتھ سیاست کرنے والوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں تک تعلق پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ انہیں کیوں ساتھ ساتھ اٹھائے پھر رہی ہیں تو اس کی بھی سب سے بڑی وجہ مذہبی شناخت ہے اس کے بعد مولانا کے ماننے والوں کی تعداد اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کی سوچ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن صرف اقتدار میں اپنا حصہ لینے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں حالانکہ موجودہ صورت حال میں یہ خاصا مشکل ہے۔ ان کی سیاست مشکلات سے دوچار ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے معمولی فائدے کے لیے اچھے بھلے مذہبی تشخص کا سودا کیا اور اپنی مذہبی شناخت کو متنازع بنایا ان کے اس عمل کی وجہ سے دیگر لوگوں کی حیثیت بھی مشکوک ہوئی۔ اب انہیں وکٹ کے دوسری طرف شیخ رشید ملے ہیں۔ ان کا بھی کچھ داؤ پر نہیں لگا انہیں بھی مولانا کی طرح ہر حال میں صرف اقتدار سے محبت رہی ہے اور وہ یہ محبت قائم رکھنے کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
پاکستان میں عام آدمی 2020 میں اچھی خبروں کو ترستا رہا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ 2021 میں بھی
عام آدمی کے مسائل میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گذشتہ برس مہنگائی عروج پر رہی حکومت کوششیں کرتی رہیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ ناجائز منافع خوری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اب خبر یہ ہے رواں ماہ کے تیسرے ہفتے کے آغاز سے پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سفارشات اوگرا نے پیٹرولیم ڈویڑن کو بھیج دی ہیں۔ مزدور کش سفارشات میں کہا گیا ہے کہ کہنا ہیکہ پیٹرول لگ بھگ بارہ اور ڈیزل لگ بھگ دس روپے فی لیٹر تک مہنگا کر دیا جائے۔ ان سفارشات پر حتمی فیصلہ وزارت خزانہ وزیراعظم کی مشاورت کے بعد کرے گی۔ اگر یہ قیمتیں ایسے ہی بڑھ جاتی ہیں تو مہنگائی کا طوفان کئی غریبوں کو تباہ و برباد کر دے گا۔ پیٹرول ڈیزل مہنگا ہونے کا اثر ہر شعبہ زندگی پر پڑے گا اور فوڈ انڈسٹری سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔ حکومت اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ پیٹرول مہنگا ہونے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا اور یوں بازار میں ہر چیز کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ حکومت قیمتوں کو قابو کرنے کی کوشش کرے گی لیکن اسے کسی صورت کامیابی نہیں ملے گی کیونکہ لاگت میں اضافہ ہونے اور اخراجات بڑھنے کے بعد چیزوں کی قیمتوں کو کم کرنا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو ماضی میں بھی اس حوالے شرمندگی اٹھانا پڑی تھی اب ایک مرتبہ پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے بازار میں ناصرف اشیاء کی قلت کا سامنا کرنا ہر سکتا ہے بلکہ قیمتوں میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ممکن ہے۔
جماعت اسلامی نے کراچی میں دھرنوں کا فیصلہ کیا ہے یوں ایک طرف پی ڈی ایم والے لانگ مارچ کی طرف بڑھ رہے ہیں تو کراچی میں جماعت اسلامی نے سیاسی میدان میں متحرک کردار ادا کرنے فیصلہ کیا ہے۔امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کراچی دشمنی کا ثبوت دے رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک سر زمین پارٹی والے چائنہ کٹنگ میں ملوث ہیں، پیپلز پارٹی کراچی کو صوبے کا حصہ ہی نہیں سمجھتی۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے اسے درست گنا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے لیے گیارہ سو ارب کے پیکج کا اعلان کیا لیکن کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کراچی کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے تحریک حقوق کراچی کے تحت آج سے دھرنے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج سے مختلف علاقوں میں شروع ہونے والا دھرنوں کا سلسلہ بڑھتا جائے گا اور اٹھائیس جنوری کو شہر کے پچاس کے قریب مقامات پر دھرنے دیے جائیں گے۔ شکر ہی کراچی جماعت اسلامی کو بھی ہوش آئی کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی کو اپنا کردار بڑھانا ہو گا کیونکہ شہر قائد کی ترقی میں جماعت نے بہت کام کیا ہے۔ دور جدید کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے جماعت اسلامی کو از سر نو تنظیم سازی کی بھی ضرورت ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے مضبوط ہونے سے پاکستان مضبوط ہو گا۔ جماعت اسلامی عوامی مسائل حل کرنے کی فکر کے ساتھ آگے بڑھے اور کراچی کو مافیاز کے چنگل سے نکالے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024