منفرد اور دل پذیر مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے چپ کا روزہ توڑا ہے وہ موذی مودی کو بے نقاب کرنے میدان میں نکلے ہیں اب وہ ‘کھل نائیک’ کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
قاتل موذی کس طرح کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر وار کر رہا ہے، سازشیں رچا رہا ہے، اس کا چشم کشا انکشاف بے مثل مقرر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کیا ہے۔ ہندتوا کی زہریلی سوچ سمجھنے کے لئے ڈاکٹر نائیک سے بہتر اور دانشور ہو ہی نہیں سکتا، کشمیری مسلمانوں کا سودا کرکے بھارت محفوظ واپسی کا سنہری جال ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور بھارتی مسلمانوں بالخصوص رہنمائوں کو پیغام دیا ہے کہ ناانصافی کا ساتھ دینے کی بجائے حقائق کو اقوام عالم کے سامنے لایا جائے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے انکشاف کیا ہے کہ ’’ساڑھے تین ماہ قبل بھارتی حکام نے مجھ سے رابطہ کیا۔ بھارتی حکومت کے نمائندے نے پتراجایہ ، ملائیشیا میں ستمبر2019ء میں خفیہ ملاقات کی۔ بھارتی نمائندے نے بتایا کہ وہ یہاں وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شا کے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے ملاقات کرنے بھارتی حکومت اور ان کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیاں اور بداعتمادی دور کرنے آیا ہے جس کا مقصد انہیں بھارت واپسی کا محفوظ راستہ فراہم کرنا ہے۔‘‘ ذاکر نائیک کے مطابق ’’میں حیران تھا کہ یہ وہی بی جے پی حکومت ہے جو گزشتہ ساڑھے تین سال سے میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی تھی اور ہر طرح سے میرا پیچھا کررہی تھی۔ مودی وہی شخص ہے جس نے مئی 2019ء کے دوران الیکشن تقریر میں دو منٹ سے بھی کم دورانیہ میں کم ازکم 9 مرتبہ میرا نام لیا تھا۔
میں حیران تھا کہ وہی شخص آج وزیراعظم بھارت کے طورپر مجھے بھارت واپسی کے لئے محفوظ راستہ دینے کی ترغیب دے رہا ہے؟ ادلے بدلے کی پیشکش کررہا ہے؟‘‘وہ کہتے ہیں کہ میرے لئے بھارتی وزیراعظم کا پیغام یہ تھا کہ ’’وہ میرے تعلقات اور رابطوں کو بھارت اور دیگر اسلامی دنیا کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ جب تک آپ مجھے قرآن عظیم کی تعلیمات اور صحیح احادیث کے خلاف جانے کے لئے نہ کہیں تو امت مسلمہ کے مفاد کی خاطر مجھے آپ سے تعاون کرنے میں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن مجھے ذاتی طورپر کوئی فائدہ نہیں چاہئے۔‘‘ ذاکر نائیک نے یہ بھی تصدیق کی کہ بھارتی نمائندے سے ان کی یہ ملاقات کئی گھنٹے تک جاری رہی۔اصل پیغام کا انکشاف کرتے ہوئے ذاکر نائیک نے بتایا کہ بھارتی پیغام رساں ’’نے مجھے کہاکہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر آپ مودی حکومت کی حمایت کریں۔ میں نے صاف انکار کردیا۔ میں نے کہاکہ کشمیر کے بارے میں آرٹیکل 370کو ختم کرنا بھارتی آئین کے منافی ہے۔ یہ کشمیر کے عوام کے حقوق چھیننا ہے۔ میں ناانصافی پر مبنی اس عمل کی حمایت کرسکتا ہوں نہ کشمیر کے لوگوں کو دھوکہ دے سکتا ہوں۔‘‘ ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ ’’جب اس (پیغام رساں) نے دیکھا کہ میں کسی ناانصافی کے عمل کی حمایت نہیں کروں گا تو اس نے پینترا بدل کر کہاکہ مودی کو کوئی اعتراض نہیں اگر آپ بھارت کی کسی بھی ایجنسی یا سرکاری ادارے کے خلاف بات کریں لیکن حکومت اور مودی پر نام لے کر تنقید نہ کریں ‘‘ ذاکر نائیک نے جواب دیا کہ ’’این آئی اے، آئی بی کو میں مورد الزام نہیں ٹھہراسکتا کیونکہ یہ ایجنسیاں اپنے ’سیاسی باس‘ کے احکامات پر عمل کررہی ہیں اورجو کچھ وہ کررہی ہیں ، انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
میرا کام حکومتوں کے خلاف بولنا نہیں کیونکہ میں ایک داعی ہوں جس کا کام اسلام کا پیغام پھیلانا ہے۔ جب تک آپ ناانصافی نہ کریں بنی نوع انسان اور مسلمانوں کے خلاف تو میں آپ کے خلاف کیوں بولوں گا؟‘‘ ڈاکٹر ذاکر کے مطابق ’’بعدازاں 17 دسمبر2019ء کو شہریت کے قانون کے خلاف میرا بیان اخبار میں شائع ہوا۔ میں نے بھارتی مسلمانوں کے بعض رہنمائوں اور قائدین کے بیانات دیکھے جن میں کشمیر کے بارے میں اقدامات پر بی جے پی حکومت کی حمایت کی گئی تھی۔ اسلام کا بنیادی علم رکھنے والا ایک مسلمان کیسے یہ عمل کرسکتا ہے؟ بعض یہ بیان دینے میں اس حد تک چلے گئے کہ شہریت کا قانون (سی اے اے) پورے ہندوستان میں ہونا چاہئے۔‘‘ اپنی منطق، دلیل اور علم سے لاکھوں کے مجمعے کو سحرزدہ کردینے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پیغام دیا کہ ’’مجھے اب احساس ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان رہنما بلیک میلنگ ، دبائو اور خوف کی بناپر یہ بیانات دے رہے ہوں اور ناانصافی پر مبنی اس عمل کی حمایت کررہے ہوں؟ ہوسکتا ہے کہ ناانصافی پر مبنی اس اقدام پر اگر وہ بی جے پی حکومت کا ساتھ نہ دیں تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے؟
میں بھارت کے مسلمانوں کو پیغام دیتا ہوں کہ اعلی ترین عمل یہ ہے کہ ناانصافی کے خلاف بولیں لیکن اگر آپ کو ردعمل اور ظلم وجبر کا خدشہ ہو تو آپ کم ازکم خاموش رہیں۔ کیونکہ ظلم اور ناانصافی پر مبنی کسی عمل کی حمایت کرنا اسلام کے خلاف ہے۔ آپ جنت کو دنیا سے بدل رہے ہیں۔‘‘اپنے پیغام کے آخر میں انہوں نے قرآن حکیم کی سورۃ الزمر کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ کریم کے اس پیغام کو واضح کیا کہ ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں، لیکن وہ تم کو (اللہ کے مقابلے میں) دوسروں سے ڈراتے ہیں۔‘‘ذاکر نائیک ریاست مہاراشٹرا کے پرہجوم شہر اور بھارت کے معاشی دارالحکومت بمبئی (ممبئی) میں پیدا ہوئے تھے۔کشن چند چیلارام کالج میں تعلیم حاصل کی۔ ٹوپی والا نینشل میڈیکل کالج اور بی وائے ایل نائر خیراتی ہسپتال سے میڈسن پڑھی پھر ممبئی یونیورسٹی سے بیچلر آف میڈیسن اینڈ سرجری ( ایم بی بی ایس) کی سند پائی۔ لیکن ان کا سفر تقدیر کے مالک نے کسی اور راستے کے لئے متعین کیا تھا۔
1991ء میں انہوں نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور ’اسلامک ریسرچ فائونڈیشن‘ قائم کی۔ اسلامی تحقیق کے اس ادارے میں ان کی اہلیہ فرحت نائیک نے شعبہ خواتین کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ وہ احمد دیدات سے متاثر ہوئے۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے احمد دیدات نے مسیحی پادریوں اور راہبوں سے مناظروں میں اسلام کی حقانیت کو جس طرح دنیا پر ثابت کیا، وہ بلاشبہ اللہ تعالی کی ان پر رحمت کا مظہر ہی کہا جا سکتا ہے۔
ذاکر نائیک کا کہنا ہے کہ 1987ء میں ان کی احمد دیدات سے ملاقات ہوئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ذاکر نائک کو احمد دیدات سے ہی تشبیہہ دی جانے لگی اور وہی ان کی شناخت کا حوالہ بن گیا۔ ذاکر نائیک کا انداز بھی غالب حد تک احمد دیدات ایسا ہی ہے۔ اسی لئے انہیں ’احمد دیدات پلَس‘ پکارا جانے لگا۔ ذاکر نائیک نے ’آئی آرایف‘ کے بعد ’پیس ٹی وی‘ یا امن ٹی وی کے نام سے چینل شروع کیا۔ یہ ٹی وی بڑی تیزی سے مقبول ہوا اور بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں گھروں میں دیکھا جانے لگا۔ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ذاکر نائیک کے اجتماع میں صرف مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ ہندو، مسیحی، سکھ سمیت ہر مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے افراد آتے اور مشکل اور پیچیدہ سوالات ان کے سامنے رکھتے۔ ایسے بھی لوگ ان اجتماعات میں سوال کرتے جو خود کو لادین کہتے۔ انہی اجتماعات میں ہم نے مرد و خواتین کو کلمہ پڑھتے اور مسلمان ہوتے دیکھا۔ تبلیغ کے اس نئے انداز نے ذات پات، چھوت چھات اور نفرت وتعصب کی زنجیروں میں جکڑے ہندو سماج میں نئی ہلچل مچا دی۔ چانکیہ دماغ رکھنے والے برہمن سیاسی مفاد پرستوں نے دیکھا کہ یہ معاملہ نہ روکا گیا تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ پھر2012ء میں پیس ٹی وی پر پابندی لگادی گئی۔ ذاکر نائک کے عوام سے رابطے کے ہر راستے کو مسدود کردیاگیا۔ نوبت ان کی جان لینے تک جاپہنچی۔ انہیں ہجرت کرنا پڑی۔
18 جولائی 2017 کو ذاکر نائیک نے خود کو ’این آرآئی‘ قرار دیا۔ میڈل ایسٹ مانیٹر کے مطابق سعودی عرب نے بھی ذاکر نائیک کو شہریت دی۔ تاہم ذاکر نائیک نے ملائیشیاکو اپنا نیا گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ دلیر اور اسلام پسند کھرے مہاتیر محمد کے دیس میں جابسے۔ یہ دیکھ کر بے اختیار یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج دنیا بھر میں پھیلے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے بیچ شاہ نجاشی کا کردار اداکرنے کا حوصلہ ملائیشیا میں ہے۔ اپنوں کو ادنی دنیاوی مفادات اور ڈالروں کی خاطر غیروں کے حوالے کردینے والے بھیڑیوں سے کیا امید؟ ملائیشیا میں یہ دم ہے کہ وہ ذاکر نائیک کسی فون کال پر اغیار کے حوالے نہیں کرے گا۔ بھارتی بدنام زمانہ ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی‘ (این آئی اے) نے 28جولائی 2017 کو ذاکر نائیک کو مجرم ومفرور قرار دے کر ان کے اثاثوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ دسمبر2017 میں انٹرپول نے بھارتی حکومت کی ’سرخ نوٹس‘ جاری کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ جنوری 2018ء میں بھارتی ٹریبونل کے جج نے بدنام زمانہ ’انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ ( ای ڈی) سے سوال پوچھا کہ ایک ہی طرح کے دو مقدمات میں آپ کی رفتار الگ کیوں؟ آسر رام کی جائیداد کی ضبطگی کے لئے تو کچھ نہیں کیاجارہا اور ذاکر نائیک کی جائیداد ضبط کرنے کے لئے زیادہ ہی پھرتی دکھائی جارہی ہے۔
جج کا یہ بھی سوال تھا کہ ذاکر نائیک پر فرد جرم عائد ہوئے اور کسی جرم کو بیان کئے کیسے ان کی جائیداد ضبط کرسکتے ہیں؟وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہاتھا کہ ذاکر نائیک کو ’ڈی پورٹ‘ نہیں کریں گے۔ ملائیشیا کے وزیر داخلہ تن سری محی الدین یاسین کا کہنا تھا کہ ذاکر نائیک پر ملائیشیا کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ ان کا یہ بیان بھارتی حکومت کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا۔ ذاکر نائیک قانونی طور پر اب ملائیشیا کے مستقل باشندے بن چکے ہیں۔ کاش پاکستان ڈاکٹر ذاکر نائیک کو شہریت دیتا۔ کم ازکم کشمیر کاز سے وفاداری پر انہیں کوئی اعزاز تو دیاہی جاسکتا ہے۔ ذاکر نائیک موذی مودی کے لئے ‘‘کھل نائیک ‘‘ بن چکا ہے اس کے مکر وفریب کا پردہ چاک کر رہا ہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024