مسابقتی ممالک نے برآمدات پر انحصار کر کے معیشت کو ترقی دی،رضا باقر
کراچی (کامرس رپورٹر) گورنر بینک دولت پاکستان ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہاندرون ملک کے بجائے بیرون ملک دیکھنے والی معیشت پر منتقلی کی ضرورت ہے، جس میں بلند اور پائیدار معاشی نمو کے حصول کے لیے برآمدات پر وسیع تر توجہ مرکوز ہو۔ انہوں نے یہ بات کراچی میں پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی)، انٹرنیشنل گروتھ سینٹر (آئی جی سی) اور کنسورشیم فار ڈویلپمنٹ پالیسی ریسرچ (سی ڈی پی آر) کے اشتراک سے’’فرمیں اور نمو‘‘ کے عنوان سے اسٹیٹ بینک میں منعقد ہونے والے ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔سیمینار کے ابتدائی سیشن میں تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے گورنر نے اپنی پریزینٹیشن میں پاکستان کی تاریخی معاشی نمو میں اندرون ملک توجہ مرتکز رہنے کی تفصیل بتائی، جس میں زیادہ انحصار ملکی صرف (consumption) پر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بیشتر مسابقتی ممالک نے بڑی حد تک معاشی نمو کے انجن کے طور پر برآمدات پر انحصار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 25 فیصد سرفہرست ابھرتی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک نے 2001ء کے بعد سے اوسطاً 7 فیصد شرح سے ترقی کی ہے۔اس اوسط شرح نمو کو حاصل کرنے کی خاطر پاکستان کے لیے یہ بات کلیدی اہمیت کی حامل تھی کہ وہ برآمدات میں خاصی بلند نمو حاصل کرے۔دیگر امور کے علاوہ ڈاکٹر باقر نے برآمدی امکانات متعین کرنے میں دو اہم ترجیحات پر بحث کی: شرح مبادلہ اور برآمدات کو متنوع بنانا۔ شرح مبادلہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شرح مبادلہ کی اوور ویلیوایشن کا مسئلہ حل کرنے سے ملکی برآمدات بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شرح مبادلہ نے برآمدات کی نمو بڑھانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن برآمدات میں بہتری کے لیے شرح مبادلہ کے علاوہ ساختی اصلاحات بھی درکار ہیں۔ اس تنا ظر میں ڈاکٹر باقر نے برآمدات کو متنوع بنانے والے مختلف ممالک کے تجربات کا موازنہ پیش کیا۔ 2004ء اور 2007 ء کے دوران پاکستان کی برآمدی ساخت کا تقابل کرتے ہوئے ڈاکٹر باقر نے بتایا کہ پاکستان کی برآمدات بڑی حد تک چند شعبوں میں مرتکز رہی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں کمی تقریباً 2012 ء سے آنا شروع ہوئی۔ کچھ کامیاب برآمدی ممالک کی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے ٹیکسٹائل اور زراعت جیسی روایتی اجناس سے ہٹ کر دیکھنے اور برآمدات کو متنوع بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔جناب عبدالحفیظ شیخ نے بھی سیمینار سے خطاب کیا ، جس میں انہوں نے کاروباری ماحول کی بہتری کے لیے حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بھی برآمدات کو متنوع بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نجی شعبے کے ساتھ مل کر ان عوامل کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے جو ماضی میں پاکستان کی معاشی نمو کو محدود کرنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے روزگار کی تخلیق اور مسابقت بڑھانے اوربعض حکومتی پالیسیوں میں تعصبات کے خاتمے کے حوالے سے حکومتی عزم پر بات کی۔ انہوں نے حکومت کی جانب سیگذشتہ کئی برسوں سے معاشی نمو میں مزاحم بعض غیر مسابقتی شعبوں کو تحفظ کی فراہمی کو اجاگر کیا۔سیشن کا افتتاحی موضوع ’اندرون ملک کے بجائے بیرون ملک دیکھنے والی معیشت پر منتقلی‘ تھا جس کا آغاز ڈاکٹر اعجاز نبی (کنٹری ڈائریکٹر آئی جی سی؛ چیئرپرسن سی ڈی پی آر) کے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ ڈاکٹر اعجاز نبی نے پائیدار معاشی نمو یقینی بنانے کے لیے برآمدی حکمت عملی میں بہتری لانے اور جاری کھاتوں کے بار بار پیدا ہونے والے بحرانوں سے بچنے کے لیے مالیاتی ذمہ داری کے کردار کی اہمیت پر زور دیا۔ ممتاز مقررین کے خطاب کے بعد احسان ملک (سی ای او، پی بی سی)، اینا بیل گیری (ڈی ایف آئی ڈی پاکستان کی سربراہ) اور گونزالو ویریلا (سینئرتجارتی ماہر معاشیات، عالمی بینک) کے درمیان پینل مباحثہ شروع ہو گیا۔ بحیثیت مجموعی اس سیشن میں بیرونی دنیا کو دیکھتی ہوئی معیشت اور برآمدی نوعیت کی اقتصادی حکمت عملی کے اہم خدوخال کو اجاگر کیا گیا جو پاکستان کو بین الاقوامی منڈی، خاص طور پر بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ممالک کے مقابلے میں مسابقت کا حامل بننے کے لیے اختیار کرنا ہوں گے۔دوسرے سیشن کا عنوان ’’کلی معاشی ماحول۔ معاشی نمو کے تناظر کا تعین‘‘تھا جس کا آغاز پی بی سی اور سی ڈی پی آر کی اسٹڈی کے اجرا سے ہوا جو’’پاک چین آزاد تجارتی سمجھوتے کے دوسرے مرحلے کا ابتدائی جائزہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ اسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ایف ٹی اے کے دوسرے مرحلے میں کئی پاکستانی اشیا کی ٹیرف رسائی میں خاصی بہتری آئی ہے لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ زائد برآمدات کی صورت میں نہیں نکلتا۔ اس کے بعد پاکستان کے طویل مدتی مالیاتی خسارے پر پریزینٹیشنز دی گئیں جبکہ ایک پریزینٹیشن پاکستان کی مسابقت بہتر بنانے پر دی گئی۔تیسرے سیشن میں شعبہ جاتی ترجیحات اور مواقع کی نشاندہی پر توجہ دی گئی۔ اس سیشن کی صدارت احسن ملک نے کی اور اس میں برآمدی نمو کے لیے ممکنہ شعبوں، ریڈی میڈ گارمنٹس سیکٹر اور ملک کی کاروں کی صنعت کو فروغ دینے پر پریزینٹیشنز دی گئیں۔دن کے اختتامی سیشن ’’اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کا کردار بطور معاشی نمو کے محرکین‘‘ کی صدارت سید ثمر حسنین نے کی، جس میں پاکستان کے لیے نئی ایس ایم ای پالیسی پر عثمان خان (لمس) اور دیہی علاقوں میںrandomized control trialکے تنا ظر میں بینکوں کو قرض دینے میں حائل مشکلات پر ڈاکٹر علی چوہدری (ریسرچ ایڈوائزر، اسٹیٹ بینک) نے پریزینٹیشنز دیں۔ اس سیشن میں پاکستان کے لیے پائیدار نمو کے رجحانات تخلیق کرنے میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) کے مقابلے میں ایس ایم ای کے شعبے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔سیمینار کا مقصد پالیسی سازوں، تھنک ٹینکس، تعلیمی ماہرین، نجی شعبے، میڈیا اور ڈونر برادری کے ساتھ اپنی تحقیقی بصیرت کا تبادلہ کرنا تھا۔ سیمینار میں بیرون ملک دیکھنے والی معیشت تخلیق کرنے، معاشی استحکام کے گرد گھومنے والے مسائل، شعبہ جاتی ترجیحات اور مواقع، اور اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے کردار کو نمو کے محرکین کے طور پر سمجھنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔