معصوم انسان اور سٹیٹس ڈویلپرز
آج کے دور میں جہاں خدا کی اشرف المخلوقات وٹس اپ‘ ٹوئٹر‘ فیس بک‘ سکائیپ اور انسٹاگرم وغیرہ جیسے مواصلاتی ذرائع کی بدولت یکجا ہو گئے ہیں جیسے ہی کسی کو کوئی تکلیف ہو تو فوراً اسکا حل بتانا‘ خوشی کی بات پر خوشی کا اظہار ‘ غم میں اظہار افسوس‘ بریک اپ میں دلاسہ‘ اچھی جاب ملنے کی امید‘ نیو مووی کی مفت میں ایڈورٹائزنگ‘ ویل ٹیسٹ میل کی لوکیشن کو شیئر کرنا‘ عام روٹین کی گپ شپ جس میں ہر معمولی بات کو بیان کرنا‘ ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش اور کبھی کبھی تو خوب ساری لڑائی کرنا۔
اس طرح اس کرہ ارض پر کروڑوں انسان ہر لمحہ ایک دوسرے کی ہر سرگرمی سے بخوبی آگاہ رہتے ہیں۔ جہاں انسان ان سب چیزوں کی بدولت ایک دوسرے سے آشنا ہو رہا ہے تو وہاں سٹیٹس کے نام پر ایک دوسرے سے دور بھی۔
آج کے دور میں سٹیٹس سے مراد ویل سٹیبلش سوسائٹی میں ریذیڈینس ایکسپینسو لیز کار‘ برائینڈ ڈریسنگ‘ شو‘ واچ‘ کف لنکس‘ جیولری‘ پرفیوم‘ آئے دن ہوٹلنگ‘ ٹریولنگ کو ہی شمارکیا جاتا ہے۔
آجکے دور میں ایک نادان انسان کے سٹیٹس کو بلند کرنے کی دھن میں رئیل سٹیٹ ڈویلپرز‘ کنسٹرکشن کمپنیز‘ ہاؤسنگ سوسائٹی میکر اور لیڈ مارکیٹنگ ایجنٹس سرفہرست نظر آتے ہیں۔
زمین کے معمولی سے ٹکڑے کو چاند کی مانند قیمتی بنانے‘ بے نام اور خاموش علاقوں کو اس شہر کا مرکز بنانے میں سب ڈویلپرز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بے شک ان کی بدولت ہی ملک کے روزگار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ایک ڈویلپنگ پروجیکٹ سے 76 کمپنیز کے ایمپلائی کو روزگار ملتا ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔
بے نام زمین کوایک خوب صورت نام دینے‘ ایک بنجر بیابان جگہ کو زندگی گزارنے کے قابل بنانے‘ لوگوں کو ایک اچھی جگہ پر رہ کر زندہ دل رکھنے کے مواقع کی فراہمی‘ ان کو جدت پسند اور ایک نئے طرز زندگی اپنانے کی ترغیب میں یہ ڈویلپرز اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔جہاں یہ سب ایک عام انسان کا سٹیٹس بلند کرنے میں اس کی مدد کر رہے ہیں وہاں اس کو ایک ویل سٹیبلش سوسائٹی کے نام پر عام میل جول سے بھی دور کر رہے ہیں۔
1900 صدی میں مرد حضرات جو بے دھڑک ہر شام کام سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسرے کے گھروں میں بیٹھک لگایاکرتے تھے۔ خواتین جو بے ساختہ اور بے تکلفی سے ایک دوسرے کو چائے کی چسکی کے ساتھ اپنا عام طرز زندگی بیان کرتی تھیں آج سٹیٹس کی بدولت وہ بے ساختگی کئی پارٹیز‘ ہائی ٹی اور فارمل میٹنگ کی مدبھیڑ ہو کر رہ گئے ہیں۔ان سب میں کسی کی کوئی غلطی نہیں جہاں ایک عام انسان کی خواہش کو اسکی ضرورت بنا کر خود کو روزگار فراہم کرنے میں کوئی کاوش ہے تو دوسری طرف ایک عام انسان بھی اپنی زندگی کوپرآسائش بنا کر اکیسویں صدی کا ماڈرن ہیومن بن گیا ہے۔