پولیس اصلاحات کا شور؟
پاکپتن شریف روحانیت کے حوالہ سے پاکستان بلکہ برصغیر میں اہمیت کا حامل شہر ہے۔ بابا فرید شکر گنج کا مزار لاکھوں عقیدت مندوں کے دل کا سکون ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک معروف سینئر صحافی نے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ ہر دور میں دنیا میں کسی روحانی شخصیت کی حکومت رہتی ہے اور آجکل بابا فرید شکر گنج کا زمانہ ہے اور ان کی ایک مریدنی کے حوالہ سے خواب اور کرامت کا حوالہ بھی دیا لیکن اس بزرگ خاتون اول نے اسکی تردید کر دی۔ مختلف انواع کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے سسرالی حوالے سے پاکپتن کے واقعہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ خاتون اول کی بیٹی کے حوالہ سے ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اس ملک کی سپریم کورٹ میں زیر بحث رہا اور سو دن میں کامیابی کے حوالے سے نوے دن فریقین پولیس افسران‘ عدالت عالیہ ‘ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اپنی اپنی رائے اور قیاس آرائیاں تنقید اور تبصرے کرتے رہے اور ایک سیدھے سادھے وزیراعلیٰ کو بلاوجہ کوستے رہے اور انہیں بھی بولنے پر مجبور کیا ۔ معاملہ بہرحال ختم ہو گیا کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ تبادلہ نہ رک سکا اور معلوم نہیں کہ ڈی پی او کس دفتر میں اپنے پے سکیل پر کام کر رہے ہیں۔
اب چند روز قبل ضلع پاکپتن کی تحصیل عارفوالہ میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انجمن تاجران کے اجلاس میں اختتام پر صدر انجمن جن کی عمر اسی سال ہے لیڈی ڈی پی او کے سر پر ہاتھ پھیرنے کیلئے ایک قدم آگے بڑھایا تو موصوفہ نے انہیں دھکا دیا اور سخت برا بھلا کہا۔ معاملہ رفع دفعہ ہو گیا بعد میں اسی سالہ بزرگ کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی اطلاع پر شہر میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سخت احتجاج اور کشیدہ صورتحال کے تحت انہیں رہا کر دیا گیا۔ اب آپ ان دونوں واقعات پر نظر ڈالیں ۔ پہلے واقعہ پر مانیکا خاندان نے نہ مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی اور نہ ہی ملزمان گرفتار کرنے کی خواہش کی۔ موجودہ محکمانہ ہدایات کے تحت فرنٹ ڈیسک پر رپٹ درج کی جاتی تو انکی تسلی ہو جاتی لیکن فون کال پر بھی کوئی توجہ نہ دی گئی جبکہ اس قسم کی رپٹ درج کرانا ہر عام آدمی کا حق ہے۔ اگر ڈی پی او صاحب اپنے اختیارات ‘ذمہ داری کا جائزہ لیتے تو یہ معاملہ احسن طریقہ سے حل ہو جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ جہاں تک موجودہ واقعہ کا تعلق ہے ایک اسی سالہ شخص کو ایک جھوٹے ‘ بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار کر لیا۔ اور اطلاع کے مطابق تعزیرات پاکستان کی دفعہ506-B کا مقدمہ درج کیا گیا جس کے مطابق ملزم نے اسلحہ آتشیں استعمال کر کے ڈی پی و کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ کھلی کچہری دن کی روشنی‘ سینکڑوں حاضرین کی موجودگی میں کس طرح دلیرانہ جھوٹا مقدمہ ایک اعلیٰ آفیسر نے درج کرادیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے ایک پریس بیان میں اس معاملہ کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اسی سالہ بزرگ ناکردہ گناہ میں گرفتار ہو گیا۔ اس کی اور اس کے خاندان کی تذلیل ہوئی۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ مقدمہ خارج کر دیا گیا ہے یا اسکی عدالت سے ضمانت کرا کے رہا کیا گیا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک پولیس اصلاحات جاری ہیں۔ 1964-65 ابوبکر مٹھا کمشن بنا۔ اس کے بعد پولیس کے سینئر تجربہ کار‘ معزز افسران اور آئی جی صاحبان نے اپنے اپنے دور میں سٹینڈنگ آرڈر جاری کئے لیکن وہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جن کی امید تھی جس کی بنیادی وجہ وہ دوعملی ہے جو ہر دور حکومت میں جاری رہتی ہے۔ مثلاً سیاسی مداخلت اور پولیس افسران کا ذاتی انفرادی عمل یہ دونوں حکومت وقت کیلئے سردرد اور پریشان کن ہیں۔ اداروں میں مداخلت اگر ختم ہو جائے اور افسران کو مکمل طور پر بااختیار کیا جائے تاکہ وہ اپنے ماتحت کے تقرر و تبادلے اور کارکردگی پر فیصلے کرنے میں بااختیار ہوں اور ان اعلیٰ افسران کے مواخذہ کیلئے بھی ایک نظام موجود ہو تو وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پولیس ایک بااعتماد ادارہ بن سکتی ہے۔ آج بھی کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر جنرل پولیس تک وہ آفیسر موجود ہیں عوام جن کی تعریف کرتی ہے۔ اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا احترام کیا جاتاہے۔