برادریاں اوربرائیوں کی دلدل
مملکتِ خداداد پاکستان معاشی عدم استحکام سے مسلسل نبردآزما ہے اور قیامِ پاکستان سے ہی معاشی اور اقتصادی طور پر حالتِ جنگ میں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی معاشرتی تربیت کیلئے اسکا آسودہ ہونا ایک مثبت پوائنٹ ہوتا ہے۔ انحطاط کی ایک وجہ برادری ازم ہے۔ پاکستان کے اندر برادری ازم کے ناسور نے شروع میں سر اٹھا لیا تھا، خاص طور پر جنرل ضیاءالحق (مرحوم) کے دور میں تو برادری ازم کو تو پہلی ترجیحات میں شمار کیا جاتا تھا ،کراچی سے خیبر تک ہر سرکاری کلیدی عہدے پر اپنی برادری سے وابستہ افراد براجمان کردیئے۔ قارئین! کچھ روز قبل دوران مطالعہ مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ پنجاب میں بسنے والی پچانوے فیصد قومیں اور برادریاں مثلاً سادات اپنا تعلق بخارا شریف اور عربوں سے بتاتے ہیں جبکہ مغل مرزا بیگ وسطی ایشیائی ریاستوں سے جبکہ اعوان ملک اپنا شجرہ¿ نصب حضرت عباسؓ سے جا ملاتے ہیں ، انصاری کہلانے والے لوگ اپنا شجرہ حضرت ایوب انصاری سے ملاتے ہیں اور پنجاب کی دوسری بڑی برادری آرائیں اپنا حسب و نصب قدیم آریاﺅں سے جا ملاتے ہیں جبکہ پنجاب میں بسنے والے بٹ کشمیری، میر اور شیخ اپنا تعلق کشمیر سے جوڑتے ہیں۔ اگر ان سب باتوں پر اتفاق کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کی پچانوے فیصد آبادی پنجابی نہیں ہجرت کرکے آئے ہوئے مہاجر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں، ہزاروں سال سے پنجاب میں آباد یہ اقوام خود کو پنجابی رنگ میں نہ رنگ سکیں اور آج جبکہ پنجاب مخالف قوتیں تقسیم پنجاب کا نعرہ بلند کر رہی ہیں تو خود پنجاب کے ہی باسی اس نعرے کو تقویت دینے میں پیش پیش ہیں۔ محسن کشی اور احسان فراموشی کی یہ انتہا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کو تقسیم ہند سے کچھ پہلے سندھ کا حصہ بنا لیا جائے اور ایوب خاں(مرحوم) کے دور میں گوادر کو بلوچستان کا حصہ بنا دیا جائے اور پھر آج فاٹا کو خیبرپختونخواہ کا حصہ بنا دیا جائے تو سب سمجھتے ہیں کہ یہ استحکامِ پاکستان کیلئے ضروری ہے مگر جب پنجاب کی بات آتی ہے تو سب چھریاں اوربُغدے لے کر پنجاب کی چیر پھاڑ کیلئے بے قرار نظر آتے ہیں ۔ اخلاقی گراوٹ کی اس سے بڑی پستی اور کیا ہو گی۔ دراصل شعوری اور لاشعوری طور پر قوم کی تربیت میں کوتاہی برتی گئی ہے۔ چند روز قبل میں میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ لاہور اور کراچی میں ناجائز تجاوزات مسمار کی جا رہی ہیں تو کچھ متاثرین چیخ چیخ کر میڈیا پر فریاد کر رہے تھے کہ پہلے انہیں کوئی متبادل جگہ دی جائے پھر ناجائز تجاوزات گرائی جائیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ پوری دنیا میں ایسا کوئی ضابطہ اخلاق یا قانون ہے کہ آپ غیرقانونی، غیر اخلاقی طریقے سے ایک قطعہ¿ زمین پر قابض ہو جائیں اور جب آپکو وہ جگہ چھوڑنے کیلئے کہا جائے تو آپ اسکے متبادل جگہ مانگیں۔ آج مملکت پاکستان میں ایک عام شہری کو قانون کا احترام سمجھانا سب سے مشکل ٹاسک ہے۔ آپ بچوں کو سکول لے جانیوالے چنگ چی رکشہ اور ویگن و الوں سے جب یہ کہیں کہ وہ غیر قانونی سلنڈر اتار دیں تو وہ فوراً احتجاج اور ہڑتال شروع کر دیتے ہیں۔
قارئین! کسی بھی قوم کے اندر اس قوم کی نشوونما، صحت اور تعلیم کا بڑا حصہ ہوتا ہے جبکہ آج بھی پاکستان بھر میں ہزاروں سکول گھوسٹ سکولز ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم کی بجائے گدھے اور بکریاں باندھی نظر آئی ہیں جبکہ ایک محتاط سروے کیمطابق آج بھی پینتیس فیصد اساتذہ اور سکول سٹاف گھر سے نکلے بغیر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جبکہ والدین نقل و بُوٹی مافیا کے ہاتھوں مجبور ہیں اور کوالیفائیڈ اساتذہ اکیڈیمیاں چلانے میں مشغول ہیں۔ بازاروں میں بکنے والے نوے فیصد مصالحہ جات نقلی اور جعلی اور ملاوٹ زدہ ہوتے ہیں جبکہ کوکنگ آئل، گھی اور دودھ تو قسمیا طور پر اصلی دستیاب نہیں ۔ میں جب بہت سال پہلے یورپ، امریکہ، کینیڈا گیا تو میں نے دیکھا کہ سب سے سستی چیز جو کسی گراسری سٹور پر دستیاب تھی وہ دودھ اور مکھن تھا ۔ آج بھی امریکہ میں ایک گیلن دودھ پونے دو ڈالر زمیں دستیاب ہے۔ میں نے مقامی احباب سے اسکی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہ گورے لوگ سمجھتے ہیں کہ بچے کی نشوونما میں دودھ ایک کلیدی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس پراڈکٹ پر حکومت سبسڈی دیتی ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان میں خالص دودھ تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ اوکاڑہ، پتوکی، قصور اور لاہور کے مضافات میں واشنگ مشینوں میں بنایا جانے والا دودھ ہماری نسلوں کو تباہ کر رہا ہے۔ اگر اسکی مناسب روک تھام نہ کی گئی تو پاکستان کی آئندہ آنیوالی نسلیں صحت مند پیدا ہی نہیں ہوں گی۔
قارئین! بالحاظ مجموعی ہم سیاسی طور پر وہ قوم ہیں جو محنت سے زیادہ کرپشن پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کا حکمران طبقہ بھی اپنی اور اپنی نسل کے مستقبل کو محفوظ نہ خیال کرتے ہوئے اپنا ذاتی اور قومیں خزانے سے لوٹا ہوا مال غیرممالک میں رکھنا زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ قوم کی راہوں کا تعین اور نشاندہی کرنے والا بھی اس لت کا شکا رہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج عمران خان کیلئے قدم قدم پر کانٹے بوئے جا رہے ہیں جبکہ عمران خان یا اس کی آپا علیمہ خان ماضی میں کبھی بھی کسی سرکاری بااختیار عہدے پر فائز نہیں رہے۔میں سمجھتا ہوں اگلے چند ماہ اگر عمران خان سروائیو کر گئے تو اس کے نتیجے میں ایک تو مملکت کو کرپٹ مافیا سے نجات مل جائیگی اور ہم بحیثیت قوم اپنی منزل کے قریب پہنچ جائینگے۔ 17جنوری کو محترم چیف جسٹس صاحب اپنی ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے جا رہے ہیں اور انہوں نے اپنی جاب اور اپنی ذمہ داریوں سے کس حد تک انصاف کیا اس کا فیصلہ تو 17تاریخ کے بعد پڑھنے والے مضامین سے ہی چلے گا۔