ڈاکٹر سلیم اختر ۔۔ منہ بولے استاد سے حقیقی استاد تک
ڈاکٹر سلیم اخترکی سب سے بڑی وجہ شہرت ان کا تنقیدی کام ہے لیکن ایک نقاد ہونے کے باوجود انکے لہجے‘ رویے کردار اور قلم میں سختی ‘ رعوتت‘ تیزی اور کاٹ نہیں تھی۔ وہ دھیمے مزاج کے صلح جو انسان تھے۔ رویے اور لہجے میں نرمی شائستگی تھی۔ وہ جوانی میں انتہائی خوبصورت نوجوان تھے۔ مجھے آنٹی اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی جوانی اور شادی کی تصاویر دکھائیں تو میں حیران رہ گئی کیونکہ ڈاکٹر صاحب ماشاءاللہ اپنی جوانی میں کسی ہیرو سے کم نہیں لگ رہے تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کو جو مقام و مرتبہ ان کی زندگی میں ملنا چاہئے تھا وہ نہیں ملا۔ زندگی بھر لوگ کسی کی ذہانت‘ علم‘ شخصیت اور مرتبے سے حسد کرتے رہتے ہیں۔ اسے اس کا جائز حق دیتے اندر کا بغض‘ کینہ کدورت اور حسد و رقابت ابل ابل کر باہر آنے لگتا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے ہر موضوع پر بلا تکلف باتیں کرتی تھی اور فون پر بھی ہماری ایک سے دو گھنٹے باتیں چلتی تھیں۔ ادھر سے آنٹی ڈاکٹر صاحب کو کہتی کہ اب بس کریں۔ ادھر سے مجھے میرے شوہر کہتے کہ بری بات ہے تم ڈاکٹر صاحب کے کان کھا لیتی ہو۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک بار میرے شوہر کا یہ فقرہ سنا تو کہنے لگے کہ ظفر سے کہنا کہ مجھے عارفہ سے گفتگو کرکے توانائی ملتی ہے بلکہ آکسیجن ملتی ہے کیونکہ تم علمی ادبی باتیں بھی سہل‘ رواں اور جو ش و خروش سے کرتی ہو۔ ڈاکٹر صاحب زندگی کے آخری سالوں میں پندرہ سالوں میں سائیکالوجی سے پیراسائیکالوجی کی طرف آ گئے تھے یعنی موت بعد از موت عملیات روحانیات اور افق کے پار کیا ہے۔ وہ اس کام کو دلجمعی سے کرنا چاہتے تھے۔ وہ پیرا سائیکالوجی کی گتھیاں سلجھانا اور اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کے خواہاں تھے لیکن انہیں مسلسل بیماریوں نے اپنے شکنجے میں جکڑنا شروع کر دیا تھا۔ ایک بہت ہی اعلی انسان جو بالکل بے ضرر تھا جس نے دنیا میں آ کر ایک مثبت شخصیت کے ساتھ علم و ادب کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ اسے دنیا نے جواب میں کیا دیا؟؟ افسوس پاکستان نے کبھی اپنی نابغہ روزگار شخصیات کی جیتے جی اسکی قدر نہیں کی۔ انہیں سر آنکھوں پر نہیں بٹھایا۔ انہیں انکی شخصیت قابلیت مہارت اور خدمات کیمطابق عزت قدر و منزلت اور انعامات نہیں دیئے۔ اسی وجہ سے بے شمار ہیرے خاک میں مل گئے۔ میں نے اپنے عظیم استاد کو ہمیشہ عظمت کی انتہاﺅں پر دیکھا ہے۔ میں اپنے استاد پر کتاب لکھ کر انہیں امر بھی کروں گی اور انکے احسانوں‘ محبتوں اور شفقتوں کا حق بھی ادا کروں گی۔
وہ میرے محسن تھے اسلئے میں انہیں سلام کرنے چلی گئی۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔ میں نے ٹھیک سوچا تھا کہ عزت دولت شہرت اعلیٰ تعلیم آپکا مقدر ہے۔ میں نے خوشی سے کہا۔ آپ مجھے اپنا شاگرد مانتے ہیں اور آپ میرے منہ بولے استاد ہیں۔“ اسکے بعد میری کبھی کبھی کہیںنہ کہیںان سے ملاقات ہوجاتی۔ 2005ءمیں میری کتاب کی تقریب رونمائی میں آئے تو کہنے لگے۔ آپ ڈاکٹریٹ کیوں نہیں کر لیتیں۔ آپ جو کام کر رہی ہیں، ڈاکٹریٹ سے اسمیں کمال پیدا ہوجائےگا۔ میں نے کہا کہ شادی اور جاب کے بعد میں کیسے یہ سب کروں گی۔ چند ماہ بعد ڈاکٹر سلیم اختر کا فون آگیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ڈاکٹریٹ کےلئے فوراً اپلائی کردیں۔ کل آخری تاریخ ہے۔ میں نے کہا۔ میں تو مری میں ابھی چار دن اور قیام کرونگی۔ ڈاکٹرسلیم اختر نے کہا۔ میرا خیال ہے آپکو یہ موقع نہیں گنوانا چاہئے۔ میرے شوہر ہماری گفتگو سن رہے تھے۔ انہوں نے موبائل میرے ہاتھ سے لیکر کہا۔ ڈاکٹرصاحب ہم کل لاہور آرہے ہیں اور اب یہ آپکی باضابطہ شاگرد بنیں گی۔ اس طرح میں نے پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن لیا۔ ڈاکٹر سلیم اختر یہاں میرے واقعی تنقید کے استاد تھے۔ استاد ہوکر وہ میرے گھربھی آتے تھے۔ انہوں نے میری کئی کتابوں کے فلیپ لکھے۔ میری کتابوں اور تقاریب میں شرکت کی۔ ایم فل میں میرے نگران تھے۔ میں انکی واحد شاگرد تھی جو انکے گھر میں انکی ذاتی لائبریری سے درجنوں کتابیں اٹھا لاتی تھی۔ ڈاکٹر سلیم اختر ایک انتہائی نفیس، شریف اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ انکی اہلیہ ایک بہت ہی اچھی اور پیاری خاتون ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے تین بچے ہیں۔ میرا انکے گھر آنا جانا رہتاتھا۔ گذشتہ ہفتے دو بارسوچا کہ عیادت کےلئے جاﺅں لیکن نہیں جاسکی۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے 84 برس کی عمر میں 67 کتابیں لکھیں۔ کاٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، مٹھی بھرسانپ، ضبط کی دیوار، کڑے بادام، نشان جگر سوختہ، نگاہ اور نقطے، اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، ادب اور لاشعور، نفسیاتی تنقید، انشائیہ کی بنیاد، ادب اور لاشعور، جوش کا نفسیاتی مطالعہ، پاکستانی ادب، تخلیق، تخلیقی شخصیات، شعور اور لاشعور کا شاہر، غالب شناسی، آدھی رات کی مخلوق، اقبال کا نفسیاتی مطالعہ، افسانہ حقیقت سے علامت تک، اردو زبان کیا ہے، یہ ان کی چند مشہور تصانیب ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر 11مارچ 1934ءکو پیدا ہوئے۔ ساری زندگی گورنمنٹ کالج سے منسلک رہے۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں بھی درس و تدریس کی۔ گیارہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ وہ اپنی بے لاگ تنقید کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ نظریاتی اختلافات تھے اوردونوں ادبی گروہوں میںشدید اختلافات تھے۔ میں ڈاکٹر وزیرآغا اور ڈاکٹر انور سدید سے بھی ملتی تھی اور ہر وقت رابطے میں رہتی تھی لیکن ڈاکٹر سلیم اختر نے مجھے کبھی منع نہیں کیا۔ وہ انتہائی عالی ظرف انسان تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا نوائے وقت میگزین کےلئے میں نے انٹرویو کیا جو علمی، ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ (ختم شد)