سگریٹ اورٹیکس چوروں کے برانڈز
مکرمی! معلوم ہو رہا کہ حکومت سگریٹ کی صنعت سے پندرہ سے بیس ارب روپے کے اضافی ٹیکس کی وصولی کے لئے مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔ عام طور پر سگریٹ پر ٹیکس بڑھاتے ہوئے عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ٹیکس بڑھانے سے سگریٹ کی حوصلہ شکنی کرنا مقصود ہے۔ لہذا انکم ٹیکس سال 2017ءسگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کے بعد سرکاری اعدادو شمار میں سگریٹ کے فروخت میں کافی کمی دکھائی گئی اور یہ مطلب لیا گیا کہ قیمت بڑھنے سے سگریٹ پینے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک کی دو بڑی سگریٹ ساز کمپنیاں جن پر حکومت کا مذکورہ ٹیکس کی وصولی کا انحصار ہے ان کے برانڈ کی کم از کم قیمت 67 روپے تھی جبکہ ان کے مقابلہ میں ٹیکس چوری کے شعبہ کی فیکٹریوں اور سمگلنگ شدہ برانڈ کی قیمتیں 15 روپے سے 30 روپے تک تھیں2017ءمیں ٹیکس چور شعبہ کے سگریٹ کے برانڈز کی فروخت عروج پر پہنچ گئی اور ایک رپورٹ کے مطابق انکم ٹیکس 2017ءمیں 32 ارب غیر قانونی سگریٹ فروخت ہوئے۔ جب انکم ٹیکس 2018ءمیں ملٹی نیشنل سگریٹ ساز کمپنیوں نے حکومت کو اصلی حقیقت بتائی تو وزارت خزانہ نے سگریٹ کے ٹیکس چور شعبہ کو راست پر لانے کے لئے ٹیکس کا تیسرا درجہ بنا دیا تاکہ وہ کم ٹیکس دے کر قانون کے نیٹ ورک میں آ جائیں مگر ٹیکس چور اپنی روش پر قائم رہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور مذکورہ درجہ میں جا کر اپنے ریٹ کم کر کے 48 روپے کر دئیے جس کی وجہ سے ٹیکس چور شعبہ کے لالے پڑ گئے ان کی سیل بہت نیچے چلی گئی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے حکومت کو خاطر واہ ٹیکس بھی ملنے لگا لیکن اب پھر خیبرپختون نخواہ میں واقع سگریٹ بنانے والی فیکٹریوںکے مالکان میں سے چند ایک مبینہ طور پر ٹیکس چوری میں ملوث ہیں اور وہ وہ کافی مندے میں ہیں کی بھی خواہش ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھنا چاہئے تاکہ ان کاروبار پھر سے اچھے طریقے سے چل سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ اگر وہ ٹیکس کے اہداف پورا کرنا چاہتی ہے تو ٹیکس چوری رشوت خوری اور اقربا پروری کے راستے بھی بند کرے۔(زاہد راﺅف کمبوہ غلہ منڈی)