عقل و دانش کا راستہ اختیار کریں
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ اجلاس ہوا جس میں 26 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں منی لانڈرنگ کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ کا معاملہ بھی زیربحث آیا اور مختلف افراد کے نام ای سی ایل میں رکھنے اور نکالنے کے بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔وفاقی کابینہ نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ مو¿خر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کا انتظار کیا جائے گا، معاملہ آئندہ اجلاس میں دوبارہ زیرغور آئے گا۔اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ آصف علی زرداری، مراد علی شاہ اور فریال تالپور کرپشن اسکینڈل میں مرکزی کردار ہیں، جے آئی ٹی کی سفارشات پر 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں۔ وزارت قانون نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ابھی تک نہیں ملا۔ تحریری فیصلہ آتے ہی اس پرعمل درآمد کیا جائے گا، وفاقی کابینہ نے 20 افراد کے نام فوری نکالنے کی سفارش مسترد کردی ہے، ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو ای سی ایل میں شامل ناموں کا جائزہ لے گی۔ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا ہے یا نہیں۔
واضح رہے میگا منی لانڈرنگ کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں وفاقی حکومت نے 172 افراد کا نام ای سی ایل میں ڈالا تھا تاہم سپریم کورٹ نے بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، فاروق ایچ نائیک اور عاصم منظور کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ جہاں تک ملکی دولت لوٹنے اور اس کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کا مسئلہ ہے توایسے قومی مجرموں کے خلاف کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے لئے بھی عقل کا استعمال ضروری ہے، جہاں تک حکومت کی جانب سے ای سی ایل میں ڈالے گئے 172 ناموں کا سوال ہے تو اس میں حکومت کو عقل سے اور کم از کم وزیراعظم عمران خان کو جو کرکٹ کے کھلاڑی کی حیثیت سے نہ صرف وطن عزیز میں بلکہ پوری دنیا میں شہرت کے حامل ہیں انہیں سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور ان 172 ناموں میں سے خود غور کرنا چاہئے تھا کہ کس کا نام ای سی ایل میں آنا چاہئے اور کس کا نہیں کیونکہ یہ لسٹ جے آئی ٹی کی جانب سے دی گئی تھی اور ضروری نہیں کہ جے آئی ٹی کی جانب سے دی گئی لسٹ میں تمام نام ای سی ایل میں ڈالنے کے قابل ہوں خاص طور پر جہاں تک بلاول بھٹو کا سوال ہے تو جیسا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وہ تو معصوم بچہ ہے جو اپنی ماں کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے یہ تبصرہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ جس زمانے میں منی لانڈرنگ کی گئی تھی اس زمانے میں بلاول ابھی پالنے میں تھا اور اگر اب بھی قومی دولت کی لوٹ مار کی گئی ہے تو وہ بھی بلاول کے علم میں نہیں ہوگی، سپریم کورٹ نے بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، فاروق ایچ نائیک اور عاصم منظور کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا، اس پر حکومت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا نام فوری طور پر ای سی ایل سے نکال دینا چاہئے تھاتاکہ وطن عزیز میں سیاسی منافرت اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ سیاسی شخصیات سیاست کو فراموش کرتے ہوئے ایسے راستے پر گامزن ہوجائیں جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے، جیسا کہ اب ہورہا ہے کہ گذشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں چوہدری منظور احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈالاجائے گا تو سندھ حکومت بھی وفاقی وزراءکو ایم پی او کے تحت حراست میں لے سکتی ہے، یہ بیان جتنا خطرناک ہے اس سے زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ ن لیگ نے اس موقف کی حمایت کی ہے، یہ وہ بیانات ہیں جو کسی بھی ریاست کو توڑنے کا آغاز بن سکتے ہیں، کسی بھی حکمران کو حکومت کے نشے میں اس حد تک مست نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایسے سنگین بیانات کا بھی نوٹس نہ لے اور ان کا نوٹس لینے کا مطلب یہ نہیں کہ ایسی باتیں کرنے والوں کو حراست میں لے لیا جائے بلکہ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس راہ پر چلا جائے جس طرف اشارہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کیا ہے، یہ تو طے ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت کو طنزیہ انداز میں ملامت کرتے ہوئے بیس افراد کانام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا ہے تو حکومت کو اس ضمن میں کیا اعتراض ہے، جہاں تک وفاقی وزیر اطلاعات کے اس موقف کا تعلق ہے کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ آجائے تو ہم مذکورہ نام ای سی ایل سے نکال دیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی وزیراطلاعات کا یہ بھی کہناہے کہ ہم اس حکم کے خلاف اپیل میں جاسکتے ہیں یعنی تحریری فیصلہ آنے کے بعد بھی نام نکالنے کے بجائے اپیل میں جایا جاسکتا ہے، اس اقدام سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکومت دشمنی نبھارہی ہے ورنہ جب چیف جسٹس نے حکم دے دیا تو دے دیا پھر فیصلہ زبانی ہو یا تحریری اس پر عمل ہونا چاہئے، نیز سیاسی اختلاف کو سیاسی اختلاف تک ہی رہنا چاہئے یہ اس حد تک نہیں بڑھانا چاہئے جس سے ذاتی دشمنی کا احساس ہونے لگے۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 1971ءکا زخم ابھی بھرا نہیں ہے اور عاقل و بالغ افراد اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیںاور مستقبل میں ان سے بچ کر آگے بڑھتے ہیں اور اگر کوئی شخص نقصان اٹھاتا رہے اور اغلاط دہراتا رہے تو اس کو احمق ہی قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ موجودہ حکومت میں عاقل و بالغ افراد ہیں البتہ کچھ ایسے کم عمر افراد بھی ہیں جو ابھی سیاسی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے انہیں سینیئر ساتھیوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے وطن عزیز کو فوائد حاصل ہوں نقصان نہ ہو۔