فارورڈ بلاک
ایشیا کے عظیم ادیب کرشن چندر نے لکھا تھا۔ ہمارے معاشرے میں انگریزی زبان کی حیثیت ایک ایسے بدیشی مہمان کی سی ہے جسکی آمد سے گھریلو جھگڑے فوراً بندہوجاتے ہیں۔ اس زبان کی آڑ میں کئی ناحوشگوار باتیںسہولت کے ساتھ کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ میری ”پیچ“ (حیثیت) نہیں ہے بڑا تکلیف وہ لفظ ہے۔اسی جملے کو بازبان انگریزی ادا کیا جائے تو تکلیف وہ نہیں ہوتا کسی قسم کی خجالت بھی محسوس نہیں ہوتی (I Can Not Affordit) البتہ بعض جملے ایسے بھی ہیں جنہیں ادا کرتے وقت مزید وضاحت کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ جیسے کہ اس سردار صاحب کو محسوس ہوئی جب وہ اپنے سالے کا تعارف کروا رہے تھے۔
He is my brother.in.law ”مور اوور“ کے طور پر جو کچھ انہوں نے کہا وہ تحریر نہیں کیا جاسکتا!
چونکہ گھوڑوں کی خرید و فروخت بڑا بدنام لفظ ہے اس لئے اس کو انگریزی کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ فارورڈ بلاک۔ ایک تو اس میںاجتماعیت کا تاثر ملتا ہے پھر تضحیک بھی کم ہوتی ہے۔ ہمارے ایک معزز جج صاحب نے اس کا نعم البدل تلاش کیا۔ لوٹا۔ چونکہ اہل انصاف کا فرمایا ہوا ہر لفظ مستند ہوتا ہے اس لئے عوام نے اس کو قبول کرلیا۔ البتہ ذاتی طور پر ہم گھوڑے کو فوقیت دیتے ہیں۔ لوٹا بے پیندا ہی کیوں نہ ہو، بے جان ہوتا ہے پھراس کی وہ قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ گھوڑا سمجھدار اور قیمتی جانور ہے۔
اس مشینی دور میں بھی طاقت کی اکائی ”ہارس پاور“ ہے۔ شاہی اصطبل کی آبرو۔ اس کی خرید و فروخت ازمنہ قدیم اوروسطیٰ میں بھی ہوتی رہی ہے۔یہ نہایت عقلمند جانور ہے۔ ہری بھری گھاس اور سوکھی میں تمیز برت سکتا ہے۔ ہوا کا رخ پہچانتا ہے۔ آنے والی باد سموم کا بھی اسے ادراک ہوتا ہے۔ ہر تیسری چوتھی حکایت میں یہ کہیں نہ کہیں جھانکتا ہوا نظر آتا ہے.... کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے وزیر کو کہا۔ وہ سلطنت کے بے وقوف لوگوں کی فہرست مرتب کرے۔
دوسرے دن جب تعمیل حکم ہوئی تو سرفہرست ظل سبحانی کا نام تھا۔ اس پر بادشاہ بڑا جزبز ہوا۔ بولا۔ تم نے میرا نام کیسے لکھ دیا ہے؟ دست بستہ وزیر بولا: عالم پناہ! اگر جان کی امان پاﺅ ںتو کچھ عرض کروں! ان دنوں بھی وزرا کا امان طلب کرنا ضروری تھا وگرنہ ان کا حشر اس وزیر باتدبیر کی طرح ہوتا جسکا ذکر تھیکرے نے اپنی مشہور ”پیروڈی“ ”سطان اسٹورک“ میں کیا ہے۔ لکھتا ہے۔
Though almost all of his teeth had been knocked out yet wisdom and persuation hung on his lips, thoug hone of his eyes, in the fit of royal indignation had been closerp for ever, yet no other eye in the entre universe was as keen as his remaining ball."
خیر جب اسے اذن اماں ملی تو کہنے لگا۔ کل ایک اجنبی ملک سے اجنبی سوداگر آیا ہے۔ آپ نے اسے ہزار گھوڑوں کی رقم پیشگی دے دی ہے کہ اگلے سال وہ گھوڑے خرید لائے۔ نہ آپ اس ملک سے واقف ہیں نہ سوداگر کو جانتے ہیں اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوسکتی ہے۔ بالفرض وہ لے آیا تو؟
بادشاہ بولا۔ تو پھر عالم پناہ! میں فہرست میں سے آپ کا نام کاٹ کر اس کا لکھ دونگا.... اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گھوڑوں کی تجارت پرانے وقتوں میں بھی ہوتی تھی۔ اگر فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ سوداگر لاگئے ہیں اور اب گھوڑوں نے اپنے بھاﺅ تاﺅ خود لگانے شروع کردیئے ہیں۔ گو بادشاہ چلے گئے ہیں لیکن ہمارے جمہوری حکمرانوں کا رہن سہن، مزاج اور طرز حکومت اب بھی شاہانہ ہے۔ گزشتہ ستر برس میں حکمرانوں نے جو روش اختیار کی وہ کسی طور بھی مغل بادشاہوں اور امرا سے کم نہ تھی۔ ان پڑھ اکبر نے تو پھر بھی نورتن سوچ سمجھ کر لگائے تھے۔ عصر حاضر کے پنج پیاروں پر تو باقاعدہ لطائف کی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ میکستھ نے کہا تھا:
To be thus is nothing than to be safelya thus.
(اس شاہی کا کوئی فائدہ نہیں جسکی حفاظت نہ کی جاسکے۔) موجودہ حاکم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اسی وجہ سے فاروڈ بلاک بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے حکمرانوں پر دور ابتلا ہے شریف برادران قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں تو زرداری اینڈ کمپنی کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔ بیک جنبش قلم 172 آدمیوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ خوف و ہراس کی اس فضا میں بقول پیرپگاڑا مرحوم بوری سے دانے گرنے لگتے ہیں۔
گو یہ سلسلہ بہت پرانا ہے اور ہر حاکم نے اس سے حسب توفیق اور حسب ضرورت فائدہ اٹھایا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے حسین شہید سہروردی کو اپنے دفتر طلب کیا۔ بولا۔ تم نے اپنی تقریروں اور حرکات سے حکومت کا ناک میں دم کر رکھا ہے یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا میں تین چیزوں کی پیش کش کرتا ہوں تم ان میں سے ایک کو قبول کئے بغیر دفتر سے باہر نہیں جا سکتے۔
وزارت، سفارت یا جیل۔ Stick and Carrot کا سلسلہ وہاں سے شروع ہوا۔ ایوب خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے بھی استفادہ کیا۔شریف برادران نے تو انتہا ہی کر دی اکثریت نہ رکھتے ہوئے بھی شہبازشریف نے فارورڈ بلاک کی مدد سے پانچ سال تک پنجاب پر حکومت کی۔ ق لیگ پر ایسی قینچی چلائی کہ چودھری صاحبان لکیر پیٹتے رہ گئے۔ تمام اصول، اخلاقیات اور سیاسی ضابطے دھرے کے دھرے رہ گئے بڑی عجیب منطق تھی انوکھا استدلال تھا صبح کا بُھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بُھولا نہیں بھولا کہتے ہیں گویا یہ رسم شریف برادران نے ڈالی ہے۔ اب اگر تحریک انصاف نے اس آزمودہ نسخے کو آزمانے کا عزم کیا ہے تو اسے مکافات عمل ہی کہا جا سکتا ہے۔
البتہ ایک مشکل پیش آسکتی ہے گھوڑا گھاس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا موجودہ حکومت کے پاس Stick تو ہے گاجریں نہیں ہیں سابقہ حکمران ترقیاتی فنڈز کی آڑ میں ممبران کو نہال کر دیتے تھے بازپرس کا عمل بھی مفقود تھا۔ اقربا پروری بھی عروج پر تھی۔ عمران خان ترقیاتی فنڈز لوکل گورنمنٹس کو دینا چاہتا ہے پولیس اور انتظامیہ کو غیر سیاسی بنانے کا عزم بھی کر رکھا ہے۔
اسی صورت میں ممبران ضرور سوچیں گے گناہ بے لذت کا کیا فائدہ ہے چونکہ ان کی اکثریت ن لیگ کو چھوڑ کر ق لیگ میں گئی تھی اس لئے واپسی Prodigal Sons کے مترادف تھی۔ تحریک کا جو مخصوص مزاج ہے اس میں ایڈجسٹ ہونا اتنا آسان نہیں ہوگا وزارتوں کا حصول بھی دشوار ہوگا کیونکہ پہلے ہی ہاو¿س فل ہو چکا ہے۔
سندھ میں بھی دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔ زرداری نے سندھ کارڈ کھیلنا شروع کر دیا ہے بھٹو اور بے نظیر کی تصوراتی خون آلود قبائیں باب السلام کے ہر دروازے پر لٹکائی جا رہی ہیں۔ گورنر راج کے ذریعے حکومت گرانے کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں عدالتوں میں ان اقدام کا دفاع مشکل ہوگا اس کا اندازہ ECL کو چیلنج کرنے سے ہی ہو جائے گا۔ بلاول کی ممکنہ گرفتاری ماحول کو مزید گرما دے گی اگر ایک مرتبہ صوبائی عصبیت کا جوالا مکھی پھٹ پڑا تو اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب مفتی محمود اور مینگل کی صوبائی حکومتیں گرائیں تو اس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا۔
جب معیشت زبوں حالی کا شکار ہو اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں اسمبلی میں حکومت کی Pencil thinکی اکثریت ہو تو انتہائی قدم سے گریز کرنا چاہیے ، ہر پارٹی میں فاختائیں اور عقاب ہوتے ہیں۔ دایاں بازو اور بایاں بازو ہوتا ہے لیڈر کا رول Reconciler کا ہونا چاہیے ایک قسم کا توازن قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
ہر وقت ”ہل من مبارز“ کارجزیہ موزوں ہے البتہ ہلکی پھلکی موسیقی سیاست کا جزو لانیفک ہے۔ یہ عوام میں تنفس طبع کے کئی اسباب فراہم کرتی ہے لیکن اتہام جب دشنام طرازی میں ڈھلتا ہے تو پھر غلاظت کے چھینٹے ہر دامن پر پڑتے ہیں گرما گرم بحث کے لئے ضروری نہیں کہ منہ سے جھاگ بھی نکلے ۔ شیخ رشید اور رانا ثناءاللہ کو اپنی اداو¿ں پر غور کرنا چاہیے ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی ! فلم ”بین حر“ میں ایک کردار تاریخی جملہ بولتا ہے معرکہ مار لیاہے، دشمن نیست و نابود ہو گیا۔ جو شخص مرے ہوئے کو مارنے کی کوشش کرے اسے شاہ مدار کہتے ہیں۔