بھارت نے ویانا کنونشن اور انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں‘ معاملات ہر فورم پر اٹھائے جائیں
بھارتی اداروں کی جانب سے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سفارتی اہلکار کو گرفتار کرنے کے شرمناک واقعہ پر کمیشن کے بھرپور احتجاج پر اہلکار کو رہا کردیا گیا۔ بھارتی اداروں نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی سفارتی اہلکار کو بلاوجہ گرفتارکرلیا، گرفتاری کا معلوم ہوتے ہی پاکستانی ہائی کمیشن نے بھارتی دفتر خارجہ سے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے باور کرایا کہ یہ ویانا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے پاکستان بھارتی اداروں کی جانب سے ایسے اقدامات کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔بھارتی اہلکاروں نے نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن میں تعینات اہلکار کو گرفتارکرکے کئی گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھا اور اس دوران کچھ کاغذات پر زبردستی دستخط بھی کرائے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے معاملہ بھارتی وزارت خارجہ کے سامنے اٹھانے پر پاکستانی اہلکار کی رہائی عمل میں آئی۔
سفارت کار ایک ایسا فرد ہے جسے ایک ریاست دوسرے ممالک یا بین الاقوامی اداروں سے سیاسی‘ سماجی اور معاشی نوعیت کے تعلقات قائم کرنے کیلئے مقرر کرتی ہے۔ ایک سفارتکار کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جس ملک میں بھیجا گیا ہے وہاں اپنے وطن‘حکومت اور ہم وطنوں کی نمائندگی اور مفادات کا تحفظ کرے۔ اسکے ساتھ ہی دوستانہ تعلقات کاقیام اور معلومات کا تبادلہ بھی اسکی اہم ذمہ داری ہے۔ خارجہ پالیسی کے اداروں کی قدیم ترین شکل سفارتکار ہیں۔ سفارتکار کی تعریف بین الاقوامی قانون ویانا کنونشن آن ڈپلومیٹک ریلیشنز 1961ءمیں کر دی گئی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی سفارتکاروں کو بہت سے استثنیٰ حاصل ہوتے ہیں جو عام لوگوں کو میسر نہیں ہوتے۔ویانا کنونشن ہی میں سفارت کاروں کو فرائض کی خوش اسلوبی سے ادائیگی کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی اور حفاظت بھی متعلقہ حکومت ذمہ داری میں شامل ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستانی سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ بھارتی خفیہ اداروں نے پاکستانی سفارتکاروںاور انکے اہل خانہ کو تنگ کرنے کیلئے انکے گھروں کی گیس اور پانی کی فراہمی میں تعطل ڈالنا شروع کیاتھا۔ پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کے گھروں میں جانیوالے مہمانوں کو تنگ کیا جانے لگا‘ ان سے پوچھ گچھ کی جاتی اور ان کا پیچھا کرکے انہیں پریشان کیا جاتا۔گزشتہ سال مارچ میںبھارت میں پاکستانی سفارتکاروں اور ان کے بچوں کو ہراساں کرنے کے دو سنگین واقعات پیش آئے۔ نئی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں اور انکے اہل خانہ کو مختلف طریقوں سے ہراساں کئے جانے کا سلسلہ ایک ہفتے تک جاری رہا۔ حال ہی میں ایک پاکستانی سفارتکار کا ای میل اکاﺅنٹ ہیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ جی میل کی جانب سے ہیکرز کی لوکیشن نئی دہلی کی وزارت دفاع بتائی گئی۔
گزشتہ سال پاکستانی سفارت کاروں کی فیملیز کو ہراساںکرنے کے واقعات کے بعد بھارت کی طرف سے بھی ایسی ہی شکایات سامنے آئیں تو پاکستان اور بھارت نے دونوں ممالک میں سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کی شکایات پر توجہ دیتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے پر اتفاق کیا ۔پاکستان کے دفتر خارجہ اور بھارت کی وزارت برائے امورِ خارجہ نے اس حوالے سے بیک وقت ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان ناخوشگوار واقعات کا سد باب کرنے کی کوششیں کرنے کا اعلان کیا۔خیال رہے کہ پاکستانی سفارت کاروں کو نئی دہلی میں ہراساں کیے جانے کے مختلف واقعات کے بعد پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو مشاورت کیلئے اسلام آباد واپس طلب کر لیا گیا تھا، اسی دوران بھارت کی جانب سے بھی اسلام آباد میں انکے سفارت کاروں کے ساتھ برتاو¿ کے حوالے سے شکایات سامنے آئی تھیں۔ اس موقع پر سہیل محمود بھارت گئے اور سفارت کاروں کے تحفظ پر اتفاق کیا گیا۔ مگر یہ بھارت ہے۔ شاطر بنیا ہے‘ وعدے ایفا کرنااور انسانیت کیلئے نرم گوشہ اسکے دل میں کہیں موجود نہیں‘ وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو جائے۔
پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھارت کبھی کسی معاملے میں دباﺅ بڑھانے اور کبھی دباﺅ سے نکلنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ بھارت ایسے حربوںکے استعمال کی تردید کرتا ہے مگر اسکے ایسے ہتھکنڈے ناقابل تردید ہیں۔چند ماہ میں بھارت میں عام انتخابات ہونیوالے ہیں۔ مودی کی پارٹی ایک مرتبہ پھر پاکستان دشمنی کا کارڈ استعمال کرکے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایل او سی اور ورکنگ باﺅنڈری پر اسکی شرانگیزی میں اضافہ ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں اسکی سفاک سپاہ ظلم و بربریت کی انتہا کئے ہوئے ہے۔ وہاں گورنر راج سے مقاصد حاصل نہ ہو سکے تو صدر راج نافذ کر دیا گیا۔ بھارتی وزراءاور آرمی چیف کی زبانیں مودی کی حمایت میں انتخابی ماحول سازگار بنانے کیلئے پاکستان کیخلاف انگارے برساتی ہیں۔ بادی النظر میں پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کا مقصد تعلقات کو مزید کشیدہ کرنا ہے۔ ممکنہ طورپر بھارت سرکار کے ایسے ہتھکنڈوں پر پاکستان اپنا عملہ واپس بلانے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ جواب میں بھارت بھی اپنے سفارتکار واپس بلائے گا۔ ایسی محاذآرائی کو مودی اور انکے حواری انتخابات میںکامیابی کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
بنیا ذہنیت اور مودی کی فطرت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ انتخابی سیاست کیلئے مظالم کی کسی بھی حد تک جا سکتے اور انسانیت کی تذلیل کی پستیوں میں گر سکتے ہیں۔ مگر پاکستان کی طرف سے انہیں کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اپنے سفارت کاروں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ دورِ جہالت نہیں ہے جس میں سفارتکاروں کو قید اور قتل تک کردیا جاتا تھا۔ بھارت کے ایسے جارحانہ رویوں کیخلاف عالمی برادری کو فعال سفارت کاری کے ذریعے آگاہ کیا جائے اور یہ معاملہ اٹھانے کیلئے بہترین فورم اقوام متحدہ ہے‘ اس سے رجوع کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے قراردادیں موجود ہیں‘ بھارت نے ان قراردادوں کو تسلیم کیا مگر ان پر عمل کرنے پر تیار نہیں‘ اس اقوام متحدہ سے سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے کارروائی و ایکشن کی کوئی امید تو نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال اتمام حجت کیلئے یہی مناسب اور ضروری ہے۔ اقوام متحدہ ایسے معاملات کو نظرانداز کرتا ہے تو فریقین کے تعلقات میں کشیدگی اور حالات بدترین صورتحال پر منتج ہو سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی سفاکیت اور بربریت بدستور انتہاءپر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد حریت میں تیزی آئی ہے۔ بھارت کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی اور پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کو سبق سکھانے کی اور سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دیتا ہے۔ اس سے قوم قطعی طور پریشان نہیں ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے جفاکش اور مشاق فوج چوکس اور منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔
حکومت کی جانب سے سفارتی میدان میں بھارت کو دفاعی پوزیشن پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھارتی وزیر آبی وسائل نتن گڈکری کے اس بیان کا بھی نوٹس لیتے ہوئے لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ مودی سرکار نے پاکستان جانیوالا پانی روکا جس سے 5 بھارتی ریاستوں کو فائدہ ہوا۔ بھارت قانونی طور پر پاکستان کے حصے کے پانی کا ایک قطرہ بھی روکنے کا مجاز نہیں ہے۔ پاکستان کے حصے کا پانی روکنا اسکی غیرانسانی حرکت ہے۔ اس کیخلاف بھی پوری تیاری سے عالمی سطح پر آواز بلند کرکے قانونی ماہرین کے ذریعے معاملہ عالمی بنک اور عالمی عدالت انصاف میں لے جایا جائے۔