فساد انگیز بیان بازی اور غیر دانشمدانہ لفظی جنگ
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چودھری نے گزشتہ روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل کراچی جا رہا ہوں کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ ایک جیل گیا دوسرا جیل جانے والا ہے، نواز، زرداری نے اپنی سیاسی قبر خود کھودی این آر و نہیں ہوگا۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خبردار کیا ہے کہ سندھ میں فساد پھیلانے کیلئے آنے والوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹیںگے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ وزیراعظم ہیںجہاں چاہیں آئیں جائیں۔
گزشتہ تین چار ماہ سے تحریک انصاف کے رہنماﺅں اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے لیڈروں کے درمیان لفظی جنگ جاری تھی ۔ ایسی بیان بازی لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہوا کرتی ہے۔ لیکن جب سے سندھ کے بعض سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کے جن کی تعداد 172 ہے۔ نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے ہیں، لفظی جنگ نے شدت اختیار کرکے گولہ باری کی صورت اختیار کر لی ہے۔ دونوں طرف سے توپوں کے دہانے کھل گئے ہیں، فریقین بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں، مگر افسوس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ غیر پارلیمانی بیان بازی شدید نفرت کی صورت بھی اختیار کر لیا کرتی ہے۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو جموریت ڈگمگانے لگتی ہے۔ ملکی استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے اور تعمیر و ترقی کا عمل رکنے سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ طرفین سینئر سیاسی رہنما ہیں۔ ایک پارٹی کو مرکز اور تین صوبوں میں اقتدار حاصل ہے،دوسری کو سندھ ایسے اہم صوبے کی حکومت نصیب ہوئی ہے۔ اگر نفرت بڑھی تو قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا کو سخت نقصان پہنچے گا۔ فریقین ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں، جو انہیں عوام نے اس لئے دیا ہے کہ ان کے مسائل حل ہوں نہ کہ اس لئے کہ بھائی کو بھائی سے لڑا دیا جائے۔ وزیراعلیٰ مراد علیٰ شاہ جس طرح یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان وزیراعظم ہونے کے ناطے ملک بھر میں کہیں بھی آنے جانے کیلئے آزاد ہیں، اسی طرح پورا ملک وفاقی وزیر اطلاعات سمیت ساری وفاقی کابینہ کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔ معاملات کی دیکھ بھال اور مسائل کے حل کیلئے انہیں بھی ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنا جانا پڑتا ہے۔ اگر ان کی راہیں روکی جانے لگیں توان کے لئے امور مملکت کی انجام دہی اور فرائض کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی۔ ہوشمندی یہ ہے کہ اختلافات کو آئینی حدود میں رکھا جائے اور بات بات پر ”ہل من مبارز“ کا رویہ ترک کر دیا جائے۔ جہاں تک کسی صوبے میں گورنر یا صدر راج لگانے کا تعلق ہے‘ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے یہ اتنا آسان نہیں ، جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے درجنوں ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔