امریکہ کی عدم اعتماد کی پالیسی جاری
سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہا کہ اب وقت ہے کہ پاکستان گڈگورننس پر کام کرے، پاکستان کو ایماندارانہ طور پر امریکہ کے فنڈز خرچ کرنے چاہئیں، امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ تعاون کیا۔ امریکہ کو لگتا ہے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے پاکستان تعاون نہیں کرنا چاہتا۔
کیمرون منٹر پاکستان میں سفیر تھے تو انہوں نے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے لئے کام کیا، ان کو شکوہ ہے کہ امریکہ نے سندھ کو بھی تعلیم کی مد میں کافی پیسہ دیا، سارا پیسہ درست انداز میں استعمال نہیں ہوا۔ امریکہ نے کافی پیسے بلوچستان میں تعلیم کے لئے دیا۔ امریکہ کی ایسی امداد میں خورد برد سے انکارنہیں کیا جا سکتا، مگر امریکہ کی طرف سے وہ ادائیگیاں بھی روک لی گئیں جو تنصیبات اور راہداری کے استعمال و خدمات کی فراہمی کی مد میں واجبات الادا تھیں۔ امریکہ کے اس رعونت آمیز روئیے کے باوجود پاکستان کی طرف سے سروسز کی فراہمی جاری ہے۔ کیمرون منٹر نے ایک طرف خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو جبکہ دوسری طرف اعتراف کرتے ہیں کہ ماضی میں امریکہ کو جب بھی کچھ کرنا ہوا تو پاک فوج سے ہی رابطہ کرنا پڑا۔ فوج سے رابطوں سے کیا کسی بھی ملک میں جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے۔ حقیقت تو وہ ہے جس کا اظہار سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ہے کہ پاکستان میں امریکہ کو جتنی عزت دی جاتی ہے اتنی کا حقدار نہیں۔ امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان خود بدترین دہشت گردی کا شکار ہوا۔ اس کے باوجود امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرتا نظرنہیں آتا۔ پاکستان تعاون نہ کرتا تو امریکہ کے لئے افغان پریلغار اور بعد ازاں طالبان حکومت کا خاتمہ اور مرضی کی حکومت کے قیام کا موقع نہ ملتا۔ امریکہ بغیر دلیل کے کیسے کہہ سکتا ہے کہ پاکستان تعاون نہیں کر رہا۔