رواں ماہ بھی مہنگائی کی جستیں
نئے سال کے آغاز ہی میں مہنگائی کے سونامی نے عوام کوبے حال کردیا‘ اس سلسلہ میں ادارہ شماریات کی ماہ جنوری کی دوسرے ہفتے تک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان دو ہفتوں کے دوران مہنگائی میں 0.40 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ کم آمدنی والے طبقہ کیلئے قیمتوں کے حساس اشاریئے میں 0.51 اضافہ ہوا۔ دوسری جانب وزارت خزانہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ حکومت کے پہلے چھ ماہ کے دوران ترسیلات زر میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آتے ہی مہنگائی کو پر لگ گئے جس کے باعث عوام کا عملاً سکھ کا سانس لینا مشکل ہوگیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے آغاز سے اب تک ڈالر کے نرخوں میں دوبار بے مہابا اضافہ کیا‘ دو منی بجٹ پیش کئے‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ماسوائے رواں ماہ کے اور ابتدائی ایک ماہ کے‘ ہر ماہ ناروا اضافہ کیا جبکہ دو روز قبل جان بچانے والی ادویات سمیت تمام ادویات کے نرخوں میں بھی 10 سے 35 فیصد تک اضافہ کر دیا۔ چنانچہ مہنگائی کے جھکڑوں میں عوام کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل پارہا۔ ڈالر کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے تو مہنگائی کو ساتویں آسمان تک جا پہنچایا ہے جبکہ ضمنی میزانیوں میں بعض ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور بعض نئے ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ رواں ماہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں معمولی کمی کی گئی اور اسکے دو روز بعد ہی پٹرول پر جی ایس ٹی کی شرح بڑھا کر حساب برابر کردیا گیا۔ اس طرح عوام کو اب تک حکومت کی جانب سے سوائے مہنگائی اور بے روزگاری کے تحفوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ اب اس ماہ تیسرا منی بجٹ پیش کرنے کی نوید بھی وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر کی جانب سے سنائی جاچکی ہے جو مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔ عوام ابھی تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب حکومت کو سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے بڑے بڑے امدادی پیکیج مل چکے ہیں تو اسے بجلی‘ گیس‘ تیل اور دیگر اشیاءبشمول اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں اضافے کی مجبوری آخر کیوں لاحق ہورہی ہے۔ عوام نے تو اپنے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گوناںگوں مسائل سے عاجز آکر ہی عمران خان کو اقتدار کا مینڈیٹ دیا تھا۔ اگر انکی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی عوام کیلئے روٹی روزگار اور مہنگائی کے مسائل بڑھانا شروع کر دیئے ہیں تو انہیں اسی تناظر میں سابقہ حکمرانوں کا انجام بہرصورت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انہیں عوام کو ریلیف دینے اور انکی فلاح کے اقدامات بہرحال اٹھانے ہونگے کیونکہ عوام کا اپنی قیادتوں کے ساتھ رومانٹسزم تبدیل ہوتے ذرہ بھر دیر نہیں لگتی۔