ایک پرانی روایت ہے کہ کہتے ہیں کہ ہیروئن اور جوئے کے اڈے چلانے والے مافیا کا ایک گاڈ فادر جب بوڑھا ہونے لگا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ میرا کام بہت مشکل ہے اس میں ہر وقت جان کا خطرہ ہے۔ لہٰذا تم اس کی بجائے کوئی ایسا کام کر لو جس میں منافع تو اتنا ہی ہو جتنا میرے کاروبار میں ہے مگر آپ کی جان اور آپ کا سرمایہ دونوں محفوظ ہوں۔ کچھ عرصہ بعد بیٹے نے ادویات کی تیاری کا کام شروع کر دیا اور دونوں باپ بیٹا خوش و خرم زندگی گزارنے لگے۔دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کے سپلائی چین میں پائی جانے والی اندھا دھند منافع خوری کی اس سے بہتر مثال شاید آپ کو نہ مل سکے۔ ایک غریب آدمی جب بیمار ہوتا ہے تو وہ ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائی کی پرچی تھامے جب میڈیکل سٹور میں داخل ہوتا ہے تو ڈرگ انڈسٹری کا بے رحم پہیہ حرکت میں آ جاتا ہے۔ دوائی کی جو ڈبی جس پر 100 روپے کی قیمت باقاعدہ پرنٹ ہوئی ہوتی ہے اسے پڑھ کر اسے اطمینان ہوتا ہے کہ دوکاندار نے اسے یہ دوا کنٹرول ریٹ پر دی ہے مگر اسے نہیں پتہ کہ اسے دن دھاڑے لوٹ لیا گیا ہے اور اس لوٹ کھسوٹ میں کس کا کتنا حصہ ہے۔ جو دوا کاؤنٹر پر 100 روپے میں بیچی جا رہی ہے اس کی پیداواری لاگت 25 روپے ہے۔ مینو فیکچرز کو ہر 25 روپے پر 50 روپے مل جاتے ہیں گویا اس کا منافع ڈبل ہوتا ہے۔ باقی 50 روپے کس کی جیب میں جاتے ہیں اس میں 10 روپے میڈیکل سٹور والا رکھے گا اور 15 روپے ڈسٹری بیوشن کو ملیں گے اور 25 روپے دوائی کی مارکیٹینگ کاسٹ ہے جس میں پیکنگ مارکیٹنگ ڈاکٹروں کا کمیشن اور اس طرح کے دیگر خفیہ اخراجات شامل ہیں جو پیشہ ورانہ طور پر غیر اخلاقی اور قانوناً جر م ہے۔ عام صارفین کو تو شاید پتہ نہ ہو مگر اس بندر بانٹ کا حکومت کے متعلقہ اداروں کو بخوبی علم ہے مگر آج تک اس شعبے میں عوام کی بہتری کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دوائیوں کے کاروبار پر کنٹرول کے لیے سرکاری سطح پر DRAP ( ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ) کام کر رہی ہے مگر یہ ایک Toothless باڈی ہے جس کی ناک کے نیچے سب کچھ ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ دل کے آپریشن کے دوران جو اسٹنٹ ڈالا جاتا ہے وہ چائنا سے 5 ہزار روپے میں امپورٹ ہوتا ہے مگر مریض کے دل میں فِٹ ہونے تک کے عمل میں 4 لاکھ سے زیادہ کا بل بن چکا ہوتا ہے۔
ادویات کا تعلق چونکہ عام آدمی سے ہوتا ہے اس لیے قیمتوں میں اضافے سے بھی وہی متاثر ہوتا ہے اور اب جبکہ غربت، بے روزگاری اور روز افزوں مہنگائی کی چکی میں پستے، علاج معالجے کی عام سہولتوں سے بھی محروم کروڑوں پاکستانیوں کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے ملک بھر میں جان بچانے والی ادویات سمیت تمام دوائوں کی قیمتوں میں نو سے پندرہ فیصد اضافے کا فیصلہ ان کے روز و شب کی تلخیوں کو یقیناً مزید بڑھانے کا سبب بنے گا۔ گزشتہ روز ڈریپ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق دوا ساز کمپنیوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی منظوری سے جان بچانے والی تقریباً ساڑھے چار سو دوائوں کی قیمت میں نو فیصد جبکہ بقیہ تمام دوائوں کی قیمت میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دوائوں کی قیمتوں میں اضافے کی وکالت کرتے ہوئے غربت کے مارے عوام کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑکنا بھی ضروری سمجھا گیا کہ اس اضافے کے باوجود پاکستان میں ادویات کی قیمتیں بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر قیمتوں سے کم رہیں گی۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھی جانی چاہیے تھی کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں تمام شہریوں کو علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہے اور محض وسائل کی کمی کے سبب کوئی شہری ان سہولتوں سے محروم نہیں رہتا۔ ڈریپ کے ترجمان کے بقول ڈالر کی قدر، گیس اور بجلی کے نرخوں، ایڈیشنل ڈیوٹی، شرح سود اور ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں بڑھانا ضروری تھا جبکہ قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض ادویات اور ویکسین کی عدم دستیابی کی شکایات بھی سامنے آ رہی تھیں، کئی کثیر القومی کمپنیاں ناسازگار صورتحال کے باعث پاکستان سے واپس جا چکی اور مزید کئی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹنے کا ارادہ کر رہی تھیں، ان حالات میں دوا سازی کی مقامی صنعت کی جانب سے دوائوں کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ مسلسل بڑھ رہا تھا، لہٰذا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تمام متعلقہ فریقوں سے مشاورت کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ ملک میں ادویات کی دستیابی، نئی انویسٹمنٹ اور فارما سیوٹیکل صنعت کے فروغ کیلئے قیمتوں میں نو اور پندرہ فیصد اضافہ کیا جائے چنانچہ اس مقصد کیلئے وزارتِ صحت کی جانب سے ضروری کارروائی کے بعد وفاقی حکومت کی منظوری سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا یہ بیانیہ بظاہر مکمل طور پر معاملے کے صرف ایک فریق یعنی دوا ساز کمپنیوں کے موقف کی وکالت پر مبنی نظر آتا ہے۔ صارفین اور عوام کے موقف کا اس میں کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا جبکہ اس فیصلے کا اصل ہدف وہی ہیں۔ برسوں سے دوائوں کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہ ہونے کے دعوے کے برعکس عام صارف کا تجربہ یہ ہے کہ آئے دن مختلف ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ان کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہتی ہیں، تاہم اگر ادویہ کی قیمتیں بڑھانا بالکل ناگزیر ہو تب بھی علاج معالجے کی سہولتوں کو ہر شہری کی دسترس میں رکھنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ملک میں کم سے کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے جبکہ بہت سے اداروں میں آج بھی اس کی پابندی نہیں ہوتی، تاہم اگر چار پانچ افراد کے ایک کنبے کو پندرہ ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی حاصل ہو رہی ہو تب بھی اس رقم میں روز کی دال روٹی، گھر کے کرائے، بجلی گیس پانی کی بلوں کی ادائیگی اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا یقیناً محال ہے۔ ایسی صورت میں تمام ادویہ کی قیمتوں میں یکایک یہ اضافہ کروڑوں پاکستانیوں پر بجلی گرانے کے مترادف ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر غور لایا جائے اور تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد کوئی ایسا طریقِ کار تلاش کیا جائے جو دوا سازی کی صنعت کے مسائل بھی حل کرے اور عوام کے لیے ادویات اور علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی بھی یقینی بنائے۔ اس مقصد کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس کی اسکیم متعارف کرائی جا سکتی ہے اور اس کے لیے وسائل دولت مند طبقات پر خصوصی ٹیکس عائد کر کے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
بہرکیف پاکستان میں ڈاکٹر اور میڈیسن کمپنی کا گٹھ جوڑ ختم کر نا ضروری ہے۔ انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں سینیئر ڈاکٹرز پروفیسرز سب نے عوام کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں۔ ڈاکٹرز اپنے کمیشن کی خاطر ایک ایک نسخے میں 8-10 دوائیاں لکھ دیتے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہوتی۔بین الاقوامی یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دوائی پھر بھی معیاری ہوتی ہے وہ قیمت پر کمپرومائز نہیں کرتے مگر ان کی کوالٹی تسلی بخش ہے۔ ان کے مقابلے میں لوکل مینو فیکچرز جو دوائی بناتے ہیں اس کی Dose گھٹیا درجے کی ہوتی ہے مگر وہ لیب ٹیسٹ میں برابر نظر آتی ہے۔ جو دوائی ملٹی نیشنل والا 450 روپے میں سیل کرتا ہے۔ وہی مقامی کمپنی ڈیڑھ دو سو روپے میں دے رہی ہوتی ہے۔ مگر اس کی کوالٹی 100 روپے والی بھی نہیں ہوتی۔ مگر یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ حکومت کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈرگ انڈسٹری سے اگر مڈل مین کا خاتمہ کر دیا جائے تو دوائی کی قیمت آدھی رہ جائے گی۔عام رائے ہے کہ پاکستان میں دوا ساز کمپنیاں اتنی طاقتور ہیں کہ وہ Generic Medicine ماڈل کو متعارف نہیں ہونے دیتیں انڈیا میں راجستھان ماڈل کے نام سے یہ تجربہ کیاگیا ہے جس میں غیر منافع بخش بنیاد پر دوا کی تیاری سے 200 روپے والی دوائی 20 سے 30 روپے میں غریب لوگوں کو مل جاتی ہے۔ پاکستان میں اس ماڈل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024