یہ چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا
گزشتہ کچھ دنوں سے لائن آف کنٹرول پر بھارتی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی اور مودی سرکار کی گرگٹ کی طرح بدلتی زبان اور انڈین آرمی کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ ،دوسری طرف امریکی صدرٹرمپ جو اس وقت بھارتی زبان بول کر پاکستان مخالف بیانات سے جنگ کی دھمکیاںدے رہا ہے اس نے تو اپنی خر مستی میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’ پاکستان کو اپنی زمین سے دستبردار ہونا پڑے گا‘‘یہ سب ان کے گٹھ جوڑ اورواضح فسادی عزائم کا ثبوت ہیںبلکہ ایک مؤقر جریدہ کی روایت کے مطابق دنیا بھر سے ایک سو بیس مختلف ایجنسیاں اور تھنک ٹینک ایسی ہیں جو کہ آج کی طاغوتی قوتوں کی پشت میں اپنی ناعاقبت اندیشی کیساتھ اسلام اور اسلامی نظریاتی ریاست کو نقش ارضی سے مٹانے کے زعم باطل میں مبتلا ہیں جبکہ یہ ان کی کوڑھ مغزی اور قلبی مرض کے سوا کچھ نہیں ۔ان کے اس مرض کے بارے اللہ پاک نے ارشادفرمایا’’ ان کے دلوں میں مرض ہے اور ان کا یہ مرض بڑھا دیا گیا ہے ‘‘ البتہ جملہ شیاطین اتنا ضرور جان چکے ہیں کہ مسلم ریاست کو مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر نقصان دیا جا سکتا ہے ۔اس کیلئے وہ اپنے شاطر انہ چال بازی سے کئی اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں اور خوف و دہشت پیداکرنے کیلئے قتل و غارت بھی کرتے ہیں۔یہ تمام تر تھنک ٹینکس اور ایجنسیاںدشمنان اسلام کو مسلمانوں میں نظریاتی انتشار پیدا کرنے کیلئے مواد مہیا کرتی ہیں جسے اپلائی کرکے یہ اپنی فتوحات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ وزیر اعظم برطانیہ مسٹر چرچل کا یہ مقولہ بہت معروف ہے۔’’ Divide and Rule یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ ‘‘یہی ان پالیسی سازوں کا مدعا ہے اوریہ اسی نظریہ پرعمل پیرا ہوکر تقسیم کرتے ہیں اور ملی و مذہبی یکجہتی اور وحدت کو فرقوں میں منقسم کرنے کے بعد باہم فساد برپا کرنے کی اپنی مکروہ افکارو رذیلہ عادات و اطوار کیساتھ مسلمانوں پہ حملہ آور ہورہے ہیں ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق ہماری ملی وحدت میں دراڑ اس وقت پڑتی ہے جب ہماراناطہ خدا سے کمزور پڑتاہے ،جب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی بجائے گرفت ڈھیلی پڑجائے اور حرص مال و زر ،دنیاکی محبت دلوں میں گھر کرجائے خاص طورپریہ غفلت جب اجتماعی صورت اختیار کرلے۔ اس کی ایک مثال غزوہ احدمیں بہت واضح ملتی ہے ،غزوہ احد میں نبی اکرم ﷺ کی اعلیٰ عسکری صف بندی و مورچہ بندی کے نتیجے میں پہلے ہی رن میں دشمن خوف زدہ ہوکربھاگ نکلا ،تو مسلمان مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے بالخصوص جن کی ڈیوٹی درہ کے مقام بھی تھی اور انہیں تاحکم ثانی اس جگہ الرٹ رہنے کو کہاگیا وہ بھی مال غنیمت کیلئے ڈیوٹی چھوڑ بیٹھے اس بات کا جیسے ہی دشمن کو پتا چلا کہ درہ خالی ہے تو اس نے موقع پاکر اسی درہ والی سائیڈسے دوبارہ حملہ کردیااور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا،اگرچہ فتح پھر بھی مسلمانوں کو ہوئی مگرمعمولی غفلت یا مال غنیمت کا خیال ہی ایک ایسی بات تھی جو اس نقصان کی وجہ بنی،یعنی قلبی توجہ ایک کی بجائے دوسری طرف ہوئی۔دوسری طرف مسلمانوں کے غیر مسلموں بالخصوص یہودیوں سے سفارتی تعلقات اور خطے میں امن معاہدے کبھی بھی دائم المعیاد فعال،قابل قدر اور قابل اعتبارنہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ اسے بھی اگر اسلامی تاریخ کی رو سے دیکھیں تو اس میں بھی ہمیں بہترین گائیڈ اور بہترین تجربہ ملتا ہے ،مثلاً ہجرت مدینہ کے بعد جب مہاجرین کے ساتھ انصار مل کرمسلمان کچھ مضبوط ہونا شروع ہو تویہودیوں نے مسلمانوں سے خوف محسوس کیا توسرکار دوعالم ﷺ سے معاہدہ کرنے پہ تیار ہو گئے اور آپؐ نے معاہدہ کرلیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے مگر ان کے بد طینت و منافقانہ اوران کے فاسد خون نے ان کو چین سے رہنے نہ دیااورمسلمانوں سے تمام تر مفادات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غداری و بد عہدی کی اورمشترکین مکہ سے ساز باز کرنے لگے بالآخرمسلمانوں کی طرف سے ہرممکن تعاون کے باوجود وعدہ توڑ ڈالا،اس سے ثابت ہوتا ہے مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین جس قدر مضبوط و معتبرمعاہدہ کرلیا جائے کبھی کمال و تمام نہیںہوگا کیونکہ سرکار دوعالم ﷺ نے جو معاہدہ کیا اس سے معتبراور یہودیوں کے حق میں اس سے بہتر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا ۔
آج ملی وحدت کی تقسیم کے خواہاں اسیفرقہ واریت میں الجھاہوا دیکھ کربہت خوش ہیں کہ ہم شیعہ ،سنی ، دیوبندی ،بریلوی ،اہلحدیث وغیرہ یا پنجابی ،سرائیکی ، بلوچی اور پٹھان اپنی لسانی ،نسلی و علاقائی تفرقہ بازی کے عذاب میں پھنس چکے ہیںجب کہ دشمن تو ان فرقہ ورانہ فساد ات کو ہوا دے کر یعنی ہمیں آپس میں لڑانا چاہتا ہے اورہمیں غارت کرکے خود فتح کے شادمیانے بجانا چاہتا ہے جب ہم تمام جان چکے ہیںیہود و نصاریٰ مسلمانوں کے ساتھ اپنی اس جنگ کو مذہبی جنگ کا نام دے چکے ہیں اس لئے اب ضرورت اس امر کی ہے ہم من حیث القوم اپنے تمام تر معاملات پر نظرثانی کرکے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ تاریخ گواہ ہے جب ہم اپنی افکار کا تزکیہ کرکے ارتکاز کو پالیتے ہیں یعنی وحدت کی رسی میں خود کوپرو لیتے ہیںاور یقین کرلیتے ہیں کہ ہم مسلم ہیں اور ہماری جنگ کفار سے ہے تو اللہ کی مدد شامل ہوجاتی ہے اور مسلمان ہی فتح یاب ہوتے ہیں ، تاریخ اسلامی ایسے حالات و ایسی فتوحات سے بھری پڑی ہے ، ماضی قریب میں پاک بھارت جنگ کی مثا ل لے لیتے ہیں۔ اس وقت پاک بھارت جنگ اصل میں بین المذہب جنگ تھی اور ہر پاکستانی مجاہد تھا۔سب جانتے ہیں اس وقت جذبے کس قدر صادق اور تعلق بااللہ کتنا مضبوط تھا کہ کسی طرف توجہ کئے بغیر ’’اللہ اکبر ‘‘کی آوازبلند تھی جیسے اقبال نے کہا
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا لب و بام ابھی
اس وقت دنیا بھر نے دیکھاامریکہ نے پاکستان کی امداد جھوٹاوعدہ کئے رکھاجبکہ مجاہدین کی فوج کو دشمن پر گولہ و بارود پھینکنے کیلئے کسی لانچر یا منجیق کی ضرورت نہیں پڑی تھی بلکہ پاک فوج کے سپاہی اپنے سینوں سے بم باندھ کر دشمن کی صفوں میں ٹوٹ پڑے اوراللہ کی نصرت آ پہنچی جس سے دشمن کے دلوںمیں ایساخوف لاحق ہواکہ ان کے اوسان خطا ہوگئے اور دم دبا کر بھاگ گئے اورپاکستان کو فتح نصیب ہوئی۔
آج بھی مسلمانوں کو راہبرِکامل اور اولین ریاست ِاسلامی کے بانی ختم المرسلین کی بارگاہ میں رجوع کرکے دشمن کی باتوں کی پروا کئے بغیرتعلق بااللہ کومضبوط کرکے ملی وحدت کی طرف توجہ دینی چاہئے اوراپنی معمولی اصلاح کے بعد اپنی صفحیں درست کرنی چاہئیں، دشمن ہمیشہ ایسے ہی اپنی مکاریوں چالاکیوں اور فتنہ پردازی کو اپنی فتح قرار دیتا آیا ہے مگر اللہ پاک اپنے بندوں کی مدد فرماتاہے، بقول شخصے
’’ وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے‘‘
آ ج اگر کہیں پہ مسلمانوں پر حالات مشکل ہیں تو اس کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر کیا جا چکا ہے اور علامہ اقبال ؒ بھی اسی بات کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں’’اک رات میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں فریاد رس ہوا کہ یہ مسلمان ہر جگہ کیوں خوار و پریشان ہیں ؟ تو ندا آئی کیا تو نہیں جانتا کہ یہ قوم دل تو ایک رکھتی ہے مگر محبوب ایک نہیں رکھتی ‘‘