اب کسے اور کہاں فرصت کہ اخبار کی پچھلی فائل کے اوارق اُلٹ کر میرا 1st جنوری 2017کا کالم دیکھیں کہ جس میں‘ میں نے اسلام آباد میں ہونے والی نیشنل سکیورٹی کے ادارے کے سربراہ کی بریفنگ کا ذکر کیا تھا اور جس میں انتہائی تفصیل سے نیشنل ایکشن کے پلان کا ذکر کرتے ہوئے اُن اقدامات کا ذکر کیا تھا جس کے نتیجے میں اُنکے دعوے کیمطابق وطن ِعزیز میں دہشت گردی‘ تخریب کاری اور خودکش حملوں میں کمی آئی ہے۔ اس بارے میں قطعی دورائے ہو ہی نہیں سکتیں۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں افواج پاکستان نے بیش بہا قربانیاں دے کر لشکروں اور سپاہوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے جو ’’اسلام آباد‘‘ پر اپنے پرچم لہرانے کے گھناؤنے خواب دیکھ رہے تھے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے ایڈوائز کی آف دی ریکارڈ بریفنگ کا میرے نزدیک سب سے اہم بلکہ بریکنگ پہلو وہ تھا جس میں انہوں نے ایک حد تک محتاط الفاظ میں ایران سعودی کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں یہ وضاحت سے انکشاف کیا تھا کہ ایران ہمارے سعودی فرینڈلی تعلقات کے حوالے سے شاید تحفظات رکھتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کا P.M. سیکرٹریٹ میں پچاس سے اوپر میڈیا سرخیلوں کے سامنے میرے لئے تو یہ سنسنی خیز انکشاف ہی تھا جس میں انہوں نے فرمایا کہ ہمارے وطنِ عزیز سے کثیر تعداد میں اہلِ تشیع ایران جارہے ہیں اور انہیں ایرانی حکومت بغرض جہاد مملکت شام بھیج رہی ہے جہاں برسوں سے خانہ جنگی جاری ہے وسیع عسکری تجربہ رکھنے والے ریٹائرڈ جنرل نے باقاعدہ دو بریگیڈ کے نام لے کر فرمایا تھا کہ پاکستان سے جانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حکومت ایران نے اُن کی آمد محدود کر دی ہے۔ سکیورٹی ایڈوائزر کی گفتگو سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ واپس آنے والوں کو جو تفتیش کیلئے حراست میں لیا گیا ہے۔ اس پر ایران نے اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے اُن کا کہنا تھا کہ ہمارا پڑوسی ملک ایران اس بات کی شدید خواہش رکھتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات مثالی ہوں مگر اس کیلئے ہمیں اپنے قبلے کا رُخ بدلنا ہو گا۔ یقین کریں سیاست اور صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے میں اوّل تو میں یہ بات سرے سے سمجھنے سے ہی قاصر تھا کہ آخر قومی اہمیت کے ادارے کی اتنی اہم شخصیت اتنے خاص موضوع پر پچاس سے اوپر کالم کاروں اور اینکروں کو ایسی بریفنگ ہی کیوں دے رہی ہے جسکے بارے میں بقول شخصے خود ہمارا غیر ذمہ دار میڈیا بڑا محتاط رہتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ بات میرے لئے اس وقت یہ ہے کہ ایران کے اس سخت موقف کو جانتے ہوئے بھی سابق آرمی چیف نے 34 یا 39 اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی قبول کیوں کی۔ اب یہ تو خیر ممکن نہیں کہ جنرل راحیل شریف جیسے جہاندیدہ فوجی جنرل نے جی ایچ کیو اور وزیراعظم کے آشیرباد کے بغیر اتنی بڑی ذمہ داری قبول کرنے کی حامی بھری ہو۔ حالیہ مہینوں میں جب محترم جنرل راحیل شریف کی مدّتِ ملازمت کے حوالے سے ’’عوامی تنازعہ‘‘ اپنے عروج پر تھا۔ اُسی ہنگام کے بیچ یہ خبریں آنی شروع ہو گئی تھیں کہ ہمارے آرمی سربراہ کو مسلم ممالک کی افواج کی کمان سونپی جا رہی ہے۔ بجا طور پر چیئرمین سینیٹ نے ببانگ دہل یہ سوال اُٹھا کر سارے ملک کو دہلا دیا کہ کیا جنرل راحیل شریف نے اس کیلئے حکومت سے اجازت مانگی ہے؟ اور کیا ان ملازمت کے قوائد و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ ایسی ذمہ داری قبول کریں؟ بڑھکیں مارنے میں شہرت رکھنے والے وزیر دفاع نے چیئرمین سینیٹ کے جواب میں دو دن بعد جو بیان دیا وہ خود اتنا مضحکہ خیز تھا کہ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکمراں جماعت داخلی اور خارجی معاملات جس غیر سنجیدہ انداز میں چلا رہی ہے۔ اب یہ ہم جیسے صحافت کے کم علموں کو بھی علم ہے کہ اگر واقعی ان 34 یا 39 ملکوں کی کوئی فوج ہوتی تو کیا یہ اسرائیل ان کے سینے پر اس طرح مونگ دل رہا ہوتا اور پھر ایک ایسے وقت میں جبکہ عراق، شام اور لیبیا میدان ِجنگ بنے ہوئے ہیں اور جس میں باقاعدہ ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مقابل نبرد آزما ہیں۔ ایک ’’عقل اور دانش‘‘ کا اندھا بھی اس آگ کے قریب جانے سے گریز کرے گا اور یہاں ہماری سویلین فوجی حکومت اپنے محض ہفتہ دو ہفتے قبل ریٹائرڈ ہونے والے آرمی سربراہ کو ایک ایسی ’’آگ میں کودنے‘‘ کے لئے دھکیل رہی ہے کہ جس کے نتیجے میں محض تباہی اور بربادی ہی ہونی ہے۔ ہم تو براہ راست اپنے قابل احترام قابل فخر جنرل سے یہی دست بدستہ اس قوم کی آواز بن کر یہی درخواست کریں گے کہ ’’جنرل صاحب! ذرا انتظار… ذرا انتظار…‘‘
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024