کسی بھی ملک کا نظام حکومت چاہے پارلیمانی ہو،چاہے صدارتی ہو اور چاہے شخصی ہی کیوں نہ ہو،یا پھر مو روثی ہو جو بھی نظام حکومت ہو جو بھی طرز حکومت ہو نظام عد ل ہر قسم کے نظام حکومت میں آزاد ہوا کرتا ہے اور مکمل آزادی کے ساتھ اپنا کام کرتا ہے۔نظام عد ل ہر طرح سے خود مختار ہو تا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ نظام عدل حکمران اور محکوم دونوں کے لیے ضروری ہے۔نظام عدل ہی کسی بھی حکومت کسی بھی ریاست کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہو تا ہے اور نظام عدل کے بغیر کوئی بھی ملک اور کو ئی بھی معاشرہ کھڑا نہیں رہ سکتا ہے۔وہ مثال تو بہت ہی مشہور ہے کہ جب جنگ عظیم دوئم کے درمیان جب انگلستان کو بہت مار پڑ رہی تھی اور اس خدشہ کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ انگلستان بھی جرمنی کے ہا تھوں فتح ہی نہ ہو جائے تو اس وقت کے انگلستان کے وزیر اعظم چرچل نے کہا تھا کہ جا ؤ پتہ کرو کہ ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں کہ نہیں،جواب ملا انصاف ہو رہا ہے جس پر چرچل نے کہا تھا کہ پھر ہم کبھی بھی جنگ نہیں ہار سکتے ہیں۔اگر عدالتیں حکومت وقت کی مرضی کے مطابق چلنا شروع ہو جائیں تو انصاف نہیں ہو سکتا ہے۔ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ اچھی سلطنتوں میں نظام عدل شاہی فرمان سے ماروا ہی چلتا آیا ہے۔ہمارے ہاں اس حوالے سے بڑے مسائل رہے ہیں جن کا ہمیں سامنا رہا ہے۔عدلیہ کی سلیکشن اور تقرری بہت متنازع رہی ہیں،یہ امر میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں ہم ابھی تک سول سروس کے امتحان اور سرکاری افسروں کی طرز پر ججز کو بھرتی کیوں نہیں کرتے ہیں اور کیوں ہم اس حواے سے ابہام کا شکار رہے ہیں۔سول سروس کے افسران کو بھرتی کیا جاتا ہے اور پھر ان کو ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ حکومت کا نظام چلانے میں سیاسی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں اور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ کو ئی مسائل نہیں ہیں،اور کوئی کوتاہی نہیں ہو تی لیکن مجموعی طور پر سول سروس کا نظام درست چل رہا ہے اور جس طرح سے پبلک سروس کمیشن کام کرتا ہے اسی طرز پر ایک کمیشن ججز کی تقرری کے حوالے سے بنایا جائے اور وکیلوں کو اس کا حصہ بنایا جائے اور اس کے بعد سول سروس کی طرز پر ایک شاندار جوڈیشل سروس وجود میں آجائے گی۔ایک عالیشان عمارت میں اگر ہم لوگ بہتر سلیکشن کریں اور عمارت کو سجائیں،اور سپریم جوڈیشل کونسل اگر اس عمارت کی دیکھ بھال کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ انصاف لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم اپنے من پسند جج ڈھونڈتے ہیں اور ہمارے ہاں مشہور ہے کہ وکیل کی جگہ جج ہی کر لو یہ رسوائی کی بات ہے مگر حقیقت ہے۔ہمارے ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کروایا گیا،ایک مہم چلی ایک بھرپور مہم چلی اور افتخار چوہدری بحا ل ہوئے کاش اس دور میں افتخار چوہدری بحال ہو نے کے بعد خود ہی استعفی ٰ بھی دے دیتے۔اور عدلیہ کو چلنے دیتے،اس کے بعد ہوا یہ کہ ایک مخصوص انداز کی عدلیہ سامنے آئی اور ججوں اور وکیلوں کی سائکی بدل گئی اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ ایک نہا یت ہی افسوس ناک صورتحال تھی۔جو نظام ہم نے اپنا ہوا ہے اس نظام کے تحت انصاف ہونا مشکل ہے اور یہ ایک حقیقت ہے یہ نظام ایک کولونیل (coloniel) نظام ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جرگہ اور پنچائیت سے عدل کا بنیادی نظام شروع کیا جاتا اور اس کے بعد اپیل میں وکیل اور عدلیہ آتی،ہمیں اپنی روایات کے مطابق نظام ترتیب دینا چاہیے تھا ایسے شاید یہ پورا نظام چل پڑتا لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔لیکن ہم نے اس روایتی نظاموں کو دقیانوسی قرار دے کر اگنور کر دیا۔جرگہ اور پنچائت نہ صرف انصاف کرتی تھی بلکہ سمجھوتہ بھی کرواتی تھی،یہ ایک صدیوں پرانا آزمودہ نظام تھا جس کو کہ ہم نے پاکستان بننے کے بعد فارغ کر دیا۔لیکن بہر حال اگر ہم نے عدل کروانا ہے تو اسی نظام کے تحت عدل کروانا ہے تو ہمیں جو ڈیشل سروس کی طرف جانا ہوگا اور ایک با قاعدہ نظام ہو گا جس میں کہ لو گ شامل ہو ں گے اور ترقی کے زینے چڑھتے جائیں گے۔پاکستا ن قدرت کی جانب سے ہمیں دیا جانا والا ایک انمول تحفہ ہے لیکن ہم بد قسمتی سے اس تحفہ کا تحفظ نہیں کر پائیں ہیں،جن بھی قوموں نے ترقی کی ہے ان قوموں نے عدل کا نظام مضبوط کیا ہے اور کم وسائل کے حامل ملک بھی اسی وجہ سے ترقی کرکے ہم سے آگے نکل گئے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم بھی قدرت کے دیے ہو ئے اس تحفے کی قدر کریں اور اپنے نظام بہتر کریں تاکہ عوام کو ان کا حق دیا جاسکے۔
جو ڈیشل سروس کا قیام وقت کی ضرورت
Feb 15, 2025