پیر‘ 2 رجب المرجب 1442ھ‘ 15؍ فروری 2021ء

سینٹ الیکشن کیلئے یوسف رضا گیلانی کے تجویز و تائید کنندہ بھی سابق وزراء اعظم
ضرب المثل ہے کہ ’’خاناں دے خان پروہنے‘‘ یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم ہیں، وہ سینٹ الیکشن کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے الیکشن کمیشن گئے، تو دو سابق وزراء اعظم پی پی کے راجہ پرویز اشرف اور (ن) لیگ کے شاہد خان عباسی بھی ان کے دائیں، بائیں تھے۔ راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی کے تجویز کنندہ جبکہ شاہد خاقان عباسی تائید کنندہ تھے جو ملکی سیاسی تاریخ کا یقیناً منفرد اور دلچسپ مرحلہ ہوگا۔ اتحاد و یگانگت کی یہ فضا یقیناً منافقت کی آلودگی سے پاک ہوگی، یہی تقاضا ہے ملکی سیاسی حالات کا۔ کاش! اتحاد و یکجہتی کا یہ مظاہرہ ذاتیات کے علاوہ ملک و قوم کے مفادات کیلئے بھی ہو۔لیکن ’’پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے اور بھاٹی چوک میں مخالفین کو گھسیٹنے والوں‘‘ کا کیا بنے گا۔ پتہ نہیں، شاہد خان عباسی نے ’’ان‘‘ کو بھی اعتماد لیا ہے کہ نہیں خیر! یوسف رضا گیلانی خوش قسمت ٹھہرے۔ ورنہ برصغیر کی روایت ہے کہ ’’شادیوں‘‘ کے موقع پر قریبی رشتہ دار اکثر ناراض ہی ہوجاتے ہیں۔ اتحاد و یگانگت کا یہ مظاہرہ گراس روٹ لیول (نچلی سطح) پر بھی ہونا چاہئے جہاں ’’عوام کا لأنعام‘‘ دست و گریباں ہوکر ’’اشرافیہ‘‘ کی سیاست کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اب یہ ’’فلسفہ‘‘ ان کو بھی سمجھ آجانا چاہئے کہ جس طرح ’’محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے‘‘ اسی طرح سیاست میں بھی کوئی چیز ناجائز نہیں۔
وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں
محبت کریں، خوش رہیں، مسکرا دیں
٭٭٭٭٭
اڑھائی ماہ میں مسلسل چھٹی بار ’’پٹرول بم‘‘ گرانے کی تیاریاں
’’اوگرا‘‘ کی طرف سے پٹرولیم ڈویژن کو بھجوائی جانے والی سمری میں پٹرول 16 روپے جبکہ ڈیزل 14 روپے 75 پیسے مہنگا کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اب دیکھتے ہیں وزیراعظم عوام پر کتنا ترس کھاتے ہیں اور ’’اوگرا‘‘ کی سمری سے کتنے پیسے کم کرکے عوام کو ’’ریلیف‘‘ دیتے ہیں۔ ’’موت دکھا کر بخار پر راضی کرنے‘‘ کے مصداق ’’اوگرا‘‘ بھی عوام کی نبض شناسی میں ماہر ہوگئی ہے، پہلے زیادہ سمری بھیجی جاتی ہے پھر آدھی یا اس سے کم کردی جاتی ہے، عوام بے چارے بھی خوش اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ چلیں حکومت کی مہربانی ہے، قیمت کم بڑھائی ہے اگر ’’اوگرا‘‘ کی سمری کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھا دیئے جاتے تو پھر کیا بنتا ۔گویا ’’سپ وی مر گیا تے سوٹا وی بچ گیا‘‘ ویسے عوام کو حکومت کی نیت پر شک نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کن مشکل حالات میں عوام کو ریلیف دے رہی ہے کیونکہ حکومتی و اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے ہوتے ہوتے ریلیف عوام تک پہنچے گا تو کتنا رہ جائے گا۔ اس لئے ریلیف جائے بھاڑ میں۔ عوام تو خوش ہیں کہ پٹرول، ڈیزل ملتا رہے، پہیہ چلتا رہے کیونکہ عوام نے تو سستے پٹرول کا بھی ’’مزہ‘‘ چکھا ہوا ہے کہ مالکان نے پٹرول پمپ ہی بند کردیئے تھے۔
بھلی بُری جیسی بھی گزری، ان کے سہارے گزر رہی ہے
حضرت دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں
سینٹ الیکشن کی فیس جمع کرانے کیلئے پیسے کم پڑنے پر فرحت اللہ بابر کو چندہ جمع کرنا پڑا
چندہ جمع کرنا یا چندہ دینا عام طور پر کسی دینی، مذہبی یا فلاحی کام کیلئے ہوتا ہے جس میں رضائے الٰہی کو ہی مطمح نظر بنایا جاتا ہے۔ چندہ دینے والا 10 دنیا اور 70 آخری کی امید اور یقین پر ہوتا ہے۔ اب سینٹ کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے فرحت اللہ بابر کے پیسے کم پڑنے پر اکٹھے کرکے پورے کرنے کے بارے میں ’’چندے‘‘ کی اصطلاح بھی یقیناً خدمت خلق اور فلاحی مشن کی عکاسی کیلئے ہی استعمال کی گئی ہوگی۔ اب پتہ نہیں، فرحت اللہ بابر نے 10 دنیا اور 70 ’’آخرت‘‘ کی امید دلائی ہے یا نہیں۔ یہ تو چندہ دینے اور چندہ لینے والے ہی جانتے ہوں گے۔ ویسے ہماری سیاست میں ’’ایسے نیک کام‘‘ کے لئے ’’چندے‘‘ یا ’’ڈونر‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی بلکہ ’’ایسے لوگوں‘‘ کو ’’انویسٹرز‘‘ کہا جاتا ہے اور ہمارے سیاسی نظام کی یہ ایک خاص ’’ریت‘‘ ہے کہ کونسلرز سے ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹرز تک انتخابی اخراجات اٹھانے والے کوئی اور ہوتے ہیں، بعد میں یہی لوگ ’’کمیشن‘‘ اور ’’ٹھیکوں‘‘ کے نام پر اپنے اخراجات کی وصولی کرتے ہیں۔ لیکن فرحت اللہ بابر کی شخصیت شاید سیاسی لحاظ سے ’’کاروباری‘‘ نہیں اسی لئے انہوں نے کسی ’’انویسٹمنٹ‘‘ کی بجائے چندہ جمع کرنے کو ہی ترجیح دی کہ
؎ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
ان کی اس ’’ادا‘‘ کو یقیناً عوام و خواص میں پذیرائی ملی ہوگی کہ
؎ قلندروں کا لہو دیکھ ، عجز نہ دیکھ
جو کام نہ کرسکے، وہ کام آئے تو ہیں
٭٭٭٭٭
کامیاب ہوئے تو لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے: عبدالحفیظ شیخ
عبدالحفیظ شیخ پاکستان کے خزانہ دار (یعنی وزیر خزانہ) ہیں، پہلے مشیر خزانہ تھے پھر اپنی صلاحیتوں کے باعث وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا اب حکومتی پارٹی کی طرف سے سینٹ کے امیدوار بھی ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ بوسٹن یونیورسٹی (امریکہ) سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی ہیں 2002 میں سندھ کے وزیر خزانہ، 2003 میں مشرف کے وزیر پرائیویٹائزیشن ، 2006 سے 2012 اور پھر 2012 سے 2016 تک پی پی کے سینیٹر بنے اس دوران (2010 سے 2013 تک) یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں بھی وزیر خزانہ رہے۔ اب پھر وہ لنگوٹ کس کر سینٹ کے انتخابی دنگل میں اترنے کو ہیں تاکہ اپنی وزارت خزانہ کی ’’آئینی اہلیت‘‘ پوری کرسکیں۔ انہوں نے عوامی ہمدردی کے جذبات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ’’کامیاب ہوئے تو لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‘‘ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ ’’اماں جے میں تھانیدار بن گیا تے فیر روزانہ…‘‘ اب پتہ نہیں، عوامی امنگیں کون سی رہ گئی ہیں جن پر ماہر معیشت ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پورا اترنے کی کوشش کریں گے ۔ بہرحال ’’عوام‘‘ یقیناً ان کیلئے دعاگو ہی ہوں گے بقول فیض ؎
گربازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دوڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے …………