ترک صدر اردگان کا دورۂ پاکستان اور منتخب و اعلیٰ ایوانوں میں انکی بھرپور پذیرائی
ترک صدر رجب طیب اردگان پاکستان کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ گزشتہ روز ترک صدر کے طیارے نے نورخان ایئربیس پر لینڈ کیا تو وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر اور انکی اہلیہ کا پرتپاک استقبال کیا۔ انہیں گلدستہ پیش کیا جبکہ طیارے سے اترنے پر ترک صدر کو باوردی اہلکاروں نے سلامی پیش کی۔ وزیراعظم عمران خان صدر اردگان کو ایئربیس سے خود گاڑی ڈرائیو کرکے وزیراعظم ہائوس لائے جہاں مسلح افواج کے چاک و چوبند دستے نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ انہوں نے جمعرات کی شب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عشائیہ میں شرکت کی جس کا اہتمام انکے اعزاز میں ایوان صدر میں کیا گیا تھا۔ اس عشائیہ تقریب میں اپوزیشن کے بعض قائدین بھی شریک ہوئے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور مسلح افواج کے بعض دوسرے سینئر حکام بھی عشائیہ میں شریک تھے۔ معزز مہمانوں کے اعزاز میں پاکستانی ڈشز کے علاوہ ترک کھانے بھی پیش کئے گئے۔ صدر مملکت اور انکی اہلیہ نے مہمان ترک صدر اور انکی اہلیہ کا صدر دروازے پر استقبال کیا۔ جمعۃ المبارک کے روز ترک صدر نے وزیراعظم عمران خان سے ون آن ون ملاقات کی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ انکے خطاب کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان‘ چیف الیکشن کمشنر‘ تینوں مسلح افواج کے سربراہان‘ صوبائی گورنرز‘ وزراء اعلیٰ‘ گورنر سٹیٹ بنک اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔ دوسری جانب پاکستان اور ترکی کے تجارت اور سرمایہ کاری کے جوائنٹ ورکنگ گروپ نے مفاہمت کی دو یادداشتوں کو حتمی شکل دیدی ہے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے وفود نے اپنے اجلاس میں تجارت اور سرمایہ کاری کے متعدد مواقع تلاش کئے۔ اسکے علاوہ وزارت تجارت و ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پاکستان ترکی بی ٹو بی نیٹ ورکنگ سیشن کا انعقاد کیا جس کا مقصد پاکستان اور ترکی کے تاجروں کو ایک ہی چھت کے نیچے لانا تھا۔ اسی طرح ٹی ڈی اے پی نے اپنے کاروباری ہم منصبوں کے ساتھ ترک بزنس وفد کی نتیجہ خیز بی ٹو بی میٹنگز کا انعقاد کیا۔
ترک صدر اردگان جو گراس روٹ سے اپنی سیاست کا آغاز کرکے استنبول کی میئرشپ سے وزیراعظم اور صدر ترکی کے بلند ترین مناصب تک پہنچے ہیں۔ اپنے ملک کے عوام کے ہی مقبول قائد نہیں بلکہ اسلامی دنیا کو درپیش مختلف ایشوز پر انکے متحرک اور فعال کردار اور اتحاد امت کیلئے انکی فکرمندی کے ناطے مسلم دنیا کی قیادت کیلئے بھی انکے ساتھ توقعات وابستہ ہوچکی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ محض برادر مسلم ملک ہونے کے ناطے سے ہی نہیں‘ اچھے تجارتی‘ سفارتی اور سٹریٹجیکل مراسم کی بنیاد پر بھی انکے قربت و محبت کے رشتے استوار ہیں۔ انکی قیادت میں ترکی نے اقوام عالم میں پاکستان کو کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا اور کشمیر ایشو پر اور اسی طرح دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھی پاکستان کے کردار کی ہمیشہ ستائش کی اور اسکے موقف کی پاکستان سے بڑھ کر وکالت کی۔ پاکستان پر زلزلوں‘ سیلابوں اور موسمی تغیروتبدل سے ٹوٹنے والی قدرتی آفات سے عہدہ برأ ہونے کیلئے برادر ترکی ہمیشہ پاکستان کے دم قدم رہا ہے اور ترکی کی خاتون اول 2012ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں پر خود پاکستان آکر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس تناظر میں برادر سعودی عرب ہی کی طرح ترکی اور پاکستان کے دل بھی ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور پاکستان کی جانب سے بھی ترکی کا کسی بھی مشکل وقت پر بے لوث ساتھ دیا جاتا ہے۔ جب اردگان کے اقتدار کیخلاف کچھ عرصہ قبل فوجی بغاوت ہوئی تو جہاں ترک عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ایک منتخب جمہوری حکومت کے تحفظ کی ناقابل فراموش مثال قائم کی وہیں پاکستان نے بھی سفارتی سطح پر اردگان حکومت کی تائید اور انکے موقف کی بے لوث حمایت کی جس پر پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے مزید نزدیک آگئے۔
آج پاکستان اور ترکی کے مابین اعتماد کا مضبوط رشتہ استوار ہے اور تجارت و ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں پاکستان ترکی کے تجربات سے مکمل استفادہ کررہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ علاقائی ترقی و سلامتی کے مفادات کے حوالے سے بھی پاکستان اور ترکی کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور خطے میں اسلامی بلاک کی شکل میں طاقت کا توازن قائم کرنے کا تصور ترک صدر اردگان کی قیادت کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ وہ مسلم دنیا کیخلاف ہنود و یہود اور اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کی سازشوں کے سامنے ہمیشہ ڈٹے نظر آتے ہیں اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اور علاقائی نمائندہ فورمز پر دبنگ لب و لہجے کے ساتھ جہاں اتحاد امت کیلئے فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں‘ وہیں وہ مسلم قیادتوں کو جھنجوڑتے بھی ہیں جبکہ مقبوضہ بیت المقدس پر امریکہ اور اسرائیل کے تسلط کو وہ مسلم دنیا کی بدقسمتی گردانتے ہیں۔ گزشتہ ماہ جب امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دو ریاستی امن فارمولے کے تحت بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی کٹ حجتی اختیار کی تو ترک صدر اردگان نے ٹرمپ کے اس اقدام کو بھی چیلنج کیا اور مسلم قیادتوں کو بھی باور کرایا کہ اگر ہم نے اسی طرح مصلحتوں کے لبادے اوڑھے رکھے تو امریکی سرپرستی میں الحادی قوتیں ایک ایک کرکے ہم پر غالب آتی رہیں گی۔ انہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنے خطاب میں جس دردمندی کے ساتھ کشمیر و فلسطین کا کیس پیش کیا اور وہاں جاری بھارتی اور اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا‘ اسکے تناظر میں مسلم دنیا کی قیادت کیلئے انکے ساتھ بے پناہ توقعات وابستہ ہوئیں۔ وہ ایران کے ساتھ تنازعہ میں امریکی ٹرمپ انتظامیہ کو چیلنج کرتے ہوئے بھی کبھی رورعایت سے کام نہیں لیتے اور مسلم قیادتوں کی بے مروتیوں پر کڑھتے بھی نظر آتے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس خطے میں جب بھی اسلامی بلاک کی تحریک عملی قالب میں ڈھلے گی‘ ترک صدر اردگان پر ہی اسکی قیادت کیلئے مسلم دنیا کا اعتماد قائم ہوگا۔ اس تناظر میں پاکستان ترکی قریبی مراسم کا بھی اتحاد امت میں نمایاں کردار ہوگا جن کی اس معاملہ میں ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ساتھ بھی خیالات کی ہم آہنگی ہے۔
گزشتہ روز وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے صدر اردگان کی پاکستان آمد پر اسی حوالے سے مسرت و اطمینان کا اظہار کیا کہ ترکی اور پاکستان کے مابین تعلقات تاریخی اور مثالی نوعیت کے ہیں اور ہم نے ہمیشہ علاقائی اور عالمی فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ صدر طیب اردگان کے دورۂ پاکستان کے دوران ہمارا دوطرفہ تعاون کا معاہدہ طے پا جائیگا جس سے باہمی تعاون کا ایک نیا فریم ورک تشکیل پائے گا۔ چنانچہ پاکستان اور ترکی کے مابین دوطرفہ اقتصادی‘ تجارتی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے باہمی تعلقات مزید گہرے اور مستحکم ہونگے۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ترک صدر کی تقریر کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اردگان نے اپنی اس تقریر میں کشمیر کے حوالے سے کھل کر آواز اٹھائی اور دنیا کو بھارتی مظالم کی جانب متوجہ کیا۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم ان گہرے دوطرفہ سیاسی روابط کو اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملہ پربھی ترکی شروع دن سے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کی وکالت کررہا ہے۔ گزشتہ شب ایوان صدر میں عشائیہ کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور ترک صدر رجب طیب اردگان کے مابین ملاقات میں بھی دونوں برادر مسلم ممالک کی قیادتوں میں باہمی قریبی تعلقات کی جھلک نمایاں رہی اور پاکستان ترکی دوطرفہ تعلقات کو مضبوط ومتحرک تجارتی اور اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے اور ایک دوسرے کے اہم قومی مفادات سے متعلق امور اور پرجوش تعلقات کی اہمیت مکمل طور پر اجاگر کرنے پر بھی اتفاق رائے سامنے آیا جبکہ دونوں ممالک کی قیادتوں نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ پاکستان اور ترکی کو باہم مل کر اسلامو فوبیا سمیت مسلم امہ کو درپیش تمام چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ صدر عارف علوی کے بقول اعلیٰ سطح کا تذویراتی تعاون کونسل کا چھٹا اجلاس پاکستان اور ترکی کے مابین برادرانہ تعلقات کو مزید وسعت دینے اور مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ ترک صدر اردگان نے بھی سماجی رابطے کے اکائونٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں اس بنیادی نکتے کو ہی فوکس کیا اور باور کرایا کہ پاکستان اور ترکی کو قریبی طور پر باہم مل کر اسلامو فوبیا سمیت مسلم امہ کو درپیش تمام چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔
آج ہنود و یہود کی ایک مشترکہ سازشی منصوبہ بندی کے تحت مسلم دنیا کیخلاف دہشت گردی کو تحفظ و فروغ دینے کا عاجلانہ پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور بطور خاص پاکستان پر ہر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں بھارت پیش پیش ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام بھی اسی زہریلے پراپیگنڈے کے باعث شامل ہوا ہے جبکہ بھارت کی کوششیں پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈلوانے کیلئے بھی جاری ہیں۔ بے شک پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑ کر اور اقوام عالم میں اپنا سافٹ امیج اجاگر کرکے بھارتی سازشیں ناکام بنانے کیلئے اہم پیش رفت کی ہے جبکہ اب برادر ترکی کی بھرپور تائید وحمایت اور اسی طرح چین کی معاونت سے ہمیں ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم پر سرخروئی حاصل ہونے کا قوی امکان ہے۔ اسی طرح مسلم قیادتیں باہم مل کر الحادی قوتوں کی اتحاد امت کو پارہ پارہ کرنے کی تمام سازشیں بھی ناکام بنا سکتی ہیں۔ اس تناظر میںآج پاکستان ترکی اتحاد و تعاون کو اتحاد امت کی جانب اہم پیش رفت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024