ہفتہ ‘ 20 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 15 ؍ فروری 2020 ء
مہیش بھٹ اور جاوید اختر نے مودی کو فاشٹ قرار دے دیا
فاشسٹ بھارت کے معروف شاعر جاوید اختر نے نریندر مودی کو فاشسٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فاشسٹ کے سر پر سینگ تو نہیں، لوگوں کو مجموعی طور پر نفرت کا نشانہ بنانے والا ہی فاشسٹ ہے جبکہ بالی وڈ کے ہدایتکار مہیش بھٹ نے کہا کہ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کی شدید لہر چلی۔ بھارتی میڈیا نے مسلمانوں کو غیر کی طرح پیش کیا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت بی جے پی کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔عربی میں کہتے ہیں کہ ’’بہترین گواہی وہ ہے جو دشمن بھی دے۔‘‘ مہیش بھٹ مسلمان نہیں لیکن اس نے مودی کو فاشسٹ قرار دے کر مقبوضہ کشمیر میں مودی کے ظلم کا شکار کشمیریوں اور بھارت میں سراپا احتجاج مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ بھارتی شاعر جاوید اختر کے بقول فاشسٹ کے سر پر سینگ نہیں ہوتے۔ ’’سر پر سینگ نہ ہونے والا‘‘ محاورہ بھی کسی کے ’’کرتوتوں‘‘ کی وجہ سے اس کا حقیقی روپ دکھاتا ہے۔ اس طرح مودی اپنی حرکتوں کے باعث ہی فاشسٹ بن چکا ہے۔ اب ’’خواص‘‘ ہی نہیں بھارتی عوام بھی بی جے پی کے اس فاشسٹ چہرے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، جس کا عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں نئی دہلی کے انتخابات میں ہوا جہاں عام آدمی پارٹی نے فاشسٹ مودی کی ہندو انتہاپسند بی جے پی کی ناک رگڑ دی اور اسے دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ مودی کے فاشسٹ ازم کے باعث بی جے پی 7ریاستوں میں اقتدار کھو چکی ہے، لگتا ہے مودی کے ہوتے ہوئے بی جے پی اور بھارت کو کسی مخالف یا دشمن کی ضرورت نہیں۔
***.....***.....***
برطانوی شاہی خاندان کا ڈپٹی کمشنر چترال کے نام اظہار تشکر کا خط
برطانوی شہزادے اور شہزادی کا شایان شان استقبال کرنے پر شاہی خاندان نے ڈپٹی کمشنر لوئر چترال کے نام اظہار تشکر کا خط بھیجا ہے۔ برصغیر اور برطانیہ میں ایک خاص ’’اپنائیت‘‘ ہے کیونکہ برصغیر میں ’’انگریز‘‘ صرف برطانویوں کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ پھر ’’انگریز‘‘ اگر شاہی خاندان کا ہو تو یہ ’’سونے پر سہاگہ‘‘ والی بات ہوتی ہے‘‘ اور ویسے بھی جس نے ’’انگریز‘‘ پہلی بار دیکھا ہو تو اس کی حیرت و مسرت کی انتہا نہیں۔
جیسا کہ چند ماہ قبل پنجاب کی ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کے بارے میں سوشل میڈیا پر ’’پیغام تہنیت‘‘ عام ہوا کہ ’’زندگی میں پہلی بار انگریز قریب سے دیکھنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔‘‘ ڈپٹی کمشنر نے تو انگریز پہلی بار نہیں دیکھا ہوگا، ہوسکتا ہے وہ دوران تعلیم یا پھر دوران سروس برطانیہ جاچکے ہیں لیکن برطانوی شاہی خاندان کا ’’انگریز جوڑا‘‘ تو ڈپٹی کمشنر نے یقینا پہلی بار ہی دیکھا ہوگا اور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہوگی جس پر برطانوی شاہی خاندان کا اظہار تشکر کا خط آیا۔ اس عزت افزائی پر ہم بھی ڈپٹی کمشنر کو مبارکباد دیتے ہیں۔
بیٹے بیٹی نے 10 سال ماں کی نعش فریزرمیں رکھے رکھی
شہر قائد کے علاقہ گلشن اقبال میں ایک خاتون کی نعش اس کے بیٹے اور بیٹی نے 10 سال تک فریزر میں رکھے رکھی۔ انکشاف اس وقت ہوا جب متوفیہ کا بھائی نعش ٹھکانے لگانے کے لئے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے جا رہا تھا لیکن اس دوران وہ پکڑا گیا۔ اس نے بتایا میرے بھانجے اور بھانجی کے مرنے کے بعد نعش کی حفاظت میرے ذمہ تھی۔
مونجی کی کٹائی اور گندم کی کاشت کے دن اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ کہا جاتا ہے اس دوران کسی کی ماں فوت ہو جائے تو اس کی تجہیز و تکفین مؤخر کر کے ماں کو ’’بھڑولے‘‘ میں ڈال لیتے ہیں اور پھر ’’فراغت‘‘ میں تجہیز و تکفین کرتے ہیں۔ ایسی کہاوت سے کاشتکاروں کی انتہائی مصروفیت اور کام کے ساتھ ان کی لگن کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ورنہ ماں جیسے مقدس رشتے کے ساتھ کون ایسا سلوک کر سکتا ہے۔ بہرحال کراچی ایشیاء کے گنجان آباد شہروں میں سے ہے اور یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ورنہ فریزر میں پڑی نعش 10 سال تک کسی نے نہ دیکھی اور بیٹے بیٹی نے ایسا کیوں کیا۔ وہ دونوں بھی وفات پا چکے ہیں لہٰذا …؎
نہ مدعی نہ ہی منصف، حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا
***.....***.....***
اپوزیشن کی کارکردگی مایوس کن ہے: فواد چودھری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ جس وزارت میں بھی جاتے ہیں ’’داستان چھوڑ جاتے ‘‘ ہیں، شیخ رشید کے بعد شاید وہ پہلے وزیر ہیں جومیڈیا اور عوام میں پوری طرح ’’اِن‘‘ رہنے کا فن جانتے ہیں۔ کبھی لاڈ، پیار سے کسی ’’ہم جماعت وزیر‘‘ کا گلا دبا کر، کبھی کسی ’’حریف ‘‘ کو آنکھیں دکھا کر اور کبھی کبھار اپنی شان میں گستاخی پر زبان کے ساتھ ہاتھ سے بھی ردّعمل دے کر زبان زدخاص و عام رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی ’’حریت پسندانہ‘‘ عادت سے مجبور ہو کر کبھی کسی، کبھی کسی کے ساتھ الجھ پڑتے ہیں جیسا کہ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے گویا وہ اپنی لاابالی طبیعت کے باعث ہر روز کوئی نہ کوئی نیا ’’چن چڑھانے‘‘ کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ کبھی رویت ہلال کمیٹی اور کبھی اسلامی نظریاتی کونسل کے ’’چھابے‘‘ میں ہاتھ ڈالتے ہیں لیکن اس بار انہوں نے اپنے ’’سیاسی شعور‘‘ شاید پہلی مرتبہ پتے کی بات کی ہے کہ ’’اپوزیشن کی پارلیمانی کارکردگی مایوس کن ہے۔‘‘ لیکن خدشہ ہے کہ فواد چودھری سے اس پر اس کی پارٹی بازپرس نہ کر لے کہ ’’جناب تسیں کنہاں نال او‘‘ و یسے فواد چودھری کی اپنی پارٹی یا وزارت کی کارکردگی کیسی ہے اس کے بارے میں بھی گاہے گاہے عوام کو آگاہ کرتے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن بھی ردعمل دے کہ ’’اپنی منجی تھلے تے ڈانگ پھیر لو‘‘ اور بقول شاعر …؎
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
***.....***.....***