جمعۃ المبارک‘9؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 15 ؍ فروری 2019ء
عوام سستے حج کے چکر میں نہ آئیں: وزیر مذہبی امور
کون سنے گا مولانا نورالحق قادری کی یہ بات۔ سب جانتے ہیں جب کوئی چیز مہنگی ہو جائے‘ نایاب ہو جائے تو لوگ شارٹ کٹ طریقے سے سستی خریدنے کے چکر میں پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ڈبل شاہ جیسے لوگ غریبوں کو ایسے چکروں میں ڈالتے ہیںکہ وہ گھن چکر ہوکر اپنا سب کچھ گنوا کر بھی ہوش میں نہیں آتے۔ اب حکومت نے حج مہنگا کر دیا۔ کہاں تین ساڑھے تین لاکھ کا خرچہ‘ کہاں یکمشت چار سے ساڑھے چار لاکھ کا خرچہ۔ جو تین لاکھ کی سکت نہ رکھتے تھے‘ وہ ساڑھے چار لاکھ کہاں سے لائیں گے۔ ان حالات میں جب مایوسی پھیل رہی ہو پورے ملک کے کونے کھدروںمیں حشرات الارض کی طرح چھپے یہ ڈبل شاہ سستا حج و عمرہ پیکیج لیکر خدا کے نام پر خدا کی مخلوق کو لوٹنے کیلئے نکل آتے ہیں۔ غریبوں کی تو پہلے ہی پریشانیوں اور گرانی نے مت ماری ہوئی ہے۔وہ بے چارے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور کم قیمت میں سستے حج یا عمرہ کے چکر میں اپنی جمع پونجی ایسے ٹورآپریٹرز کو جمع کرا دیتے ہیں جن کا مقصد خدا کے گھر اور اس کے رسولؐ کے در کی حاضری کا خواب دکھا کر اپنا گھر بھرناہوتا ہے۔ اس لئے اب حج مہنگا کرنے والوں کی تاکید اور تجویز پر کون کان دھرے گا۔ کیونکہ حکومت نے تو خود ہی سستے حج سے ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔ غریبوں کو لٹنے کی راہ پر ڈال دیا ہے جہاں قدم قدم پر لٹیرے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔
٭٭…٭٭…٭٭
کراچی:وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر گندا پانی پھینکنے والوں کے خلاف مقدمہ درج
کراچی کے مسائل اجاگر کرنے کیلئے ’’فکس اٹ‘‘ کے رہنما عالمگیرخان اور ان کے ساتھیوں کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ انہوں نے وڈے شاہ قائم علی سرکار کے عہد میں جس طرح کھلے گٹروں پر ڈھکن لگوانے کی تصویری مہم چلائی‘ سب کی توجہ اس طرف ہو گئی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے کئی کام کئے۔ پولیس کے ہاتھوں ان کی درگت بھی بنی مگر جلدہی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے اس تنظیم کے سربراہ نے حکومتی ایوانوں میں بھی جگہ بنا لی۔ کراچی میں گندگی کے خلاف یہ تنظیم پہلے بھی آواز بلند کرتی رہی ہے۔ ایک بار پھر انہوں نے کچھ ایسا ہی کیا کہ میڈیا اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ فکس اٹ کے کارکنوں نے کراچی کے بدبودار گٹروں کے معطر پانی سے بھری بالٹیاں وزیراعلیٰ ہائوس کے گیٹ پر انڈیل کر وہاں کی فضا کو کچھ زیادہ ہی رنگین اور سنگین کر دیا۔ معلوم نہیں اس کے نتیجے میں کراچی کی صفائی ستھرائی ہو جائے گی یا نہیں مگر وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر گندا پانی پھینکنے پر فکس رٹ کے رہنمائوں پر مقدمہ ضرور درج ہو گیا ہے۔ اب چونکہ ان کے پس پشت پی ٹی آئی کا ہاتھ بھی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے اس لئے فوری پکڑ دھکڑ کی امید کم ہی ہے‘ تاہم کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر اس طرح کم از کم کراچی کا ایک اور مسئلہ بھی سب کے سامنے آگیا ہے۔ اسی طرح کی ایک کوشش یادش بخیر بلوچستان کے چیف سیکرٹری پوینگرکے دور میں بھی ہوئی تھی۔ جب میونسپلٹی کے عملے نے مطالبات پورے نہ ہونے پر سول سیکرٹریٹ کوئٹہ میں گندگی کے ٹرک کھڑے کرکے وہاں کی پوری فضا کو اتنا معطر بنا دیا تھا کہ وہاں کام کرنے والوں کا سانس لینا دوبھر ہو گیا تھا۔ پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ان کے مطالبے پورے ہو گئے تھے۔
٭٭…٭٭…٭٭
وزیرخارجہ نے سعودی عرب سے ملنے والے تحائف خزانے میں جمع کرا دئیے
یہ تو بہت اچھا کیا ہے شاہ محمود قریشی صاحب نے۔ دانشمندی کا ثبوت دیا ورنہ کیا معلوم ایک مرتبہ پھر انہی کی سابق پارٹی کے بھائی بند اور روحانی سلسلہ میں بھی برابر کے پیر یوسف رضا گیلانی کی طرح کہیں انہیں بھی باتیں نہ سننا پڑتیں یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی دونوں ملتان کے پیرزادے ہیں‘ گدی نشین ہیں۔ جو وراثت میں ان کے حصہ میں آئی ہیں اس میں ان کا کوئی روحانی کمال نہیں ہے۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی کو تو ایک ہار کے بدلے میں جو کچھ سننا پڑا سمجھنا پڑا وہ انہی کا حوصلہ ہے۔ ورنہ کوئی عام آدمی ہوتا تو مدتوں لوگوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتا۔ یہ ہار سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ملا تھا جو ان کی اہلیہ نے رکھ لیا تھا۔ بعد ازاں ہار بھی واپس کرنا پڑا اور باتیں بھی سننا پڑیں۔ یہ تو وہی ۔’’اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی،، والا معاملہ تھا۔اب اس عزت کو بچانے کی خاطرسعودی عرب کی طرف سے ملنے والی قیمتی رولیکس گھڑی کف لنکس‘ سونے کی تسبیح‘ سونے کا قلم اور انگوٹھی جن کی مالیت مجموعی طور پر 63 لاکھ سے بھی زیادہ ہے وہ شاہ محمود قریشی نے ملکی خزانے میں جمع کرادی ہیں۔ بڑے دل گردے کی بات ہے ورنہ کون ہے جوملنے والے تحائف واپس کرتا ہے۔ ہمارے تو حکمران تک ملنے والے تحائف پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں مارتے۔ کیا یہ اچھا نہیں کہ ان سب کو ملنے والے تحائف بھی بحق سرکار ضبط کر کے واپس لئے جائیں۔ یوں خالی خزانے کا کچھ توپیٹ بھرجائے گا۔
٭٭…٭٭…٭٭
پشاور زلمی نے اپنا ترانہ پشتو میں جاری کر دیا
پشاور زلمی نے اپنے کھلاڑیوں اور خیبر پی کے کے عوام کا جوش و خروش بڑھانے کیلئے جو ترانہ جاری کیا ہے‘ وہ پشتو میں ہے۔ اس سے اس ترانے کا زیادہ تر اثر پشتو بولنے والوں پر ہی پڑے گا۔ باقی صوبوں کے جو لوگ پشاور زلمی کے حامی ہیں‘ پرستار ہیں ان کو خاصی مایوسی ہوگی کیونکہ ان کے پلے کچھ نہیں پڑے گا۔ بس حد سے حد وہ پشتو میوزک پر جو خاصہ جاندار اور تھرکنے پھڑکنے والا ہوتا ہے‘ یہ پشتو سے نابلد پشاور زلمی کے حامی ناچ کر یا اچھل کودکر اپنا دل بہلائیںگے۔ اب کہیں لاہور قلندر والے پنجابی‘ کوئٹہ گلیڈیٹرز والے بلوچی‘ کراچی کنگز والے سندھی ‘ ملتان سلطانز والے سرائیکی ‘ اسلام آباد یونائیٹڈ والے پوٹھوہاری میں اپنے ترانے نہ لے آئیں ۔ پھر تو یہ سپر لیگ صوبائی زبانوںکے ترانوں کی جنگ بن جائے گی۔
پاکستان کی ہر زبان محبت اور عزت کے لائق ہے۔ اس لئے کوئی اس بات پر اعتراض نہیں کر سکتا مگر جب کسی بھی ٹیم کے پرستار پورے ملک میں بکھرے ہوں تو پھر ان تک اپنے پرجوش جذبات پہنچانے کیلئے ایسی زبان میں پیغام پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے جو سب سمجھ سکیں۔ اس لئے بہتر یہ تھا کہ اردو میں ہی ترانہ جاری کیا جاتا جس میں پشتو‘ پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی کا بھی تڑکا لگالیا جاتا۔ یوں مزہ دوبالا ہوتا۔ پشاور زلمی صرف خیبر پی کے کی ٹیم نہیں۔ سارے پاکستان میں اس کے بے شمار چاہنے والے ہیں۔ اس لئے اس کے چاہنے والوں کو بھی اس کا ترانا سمجھ میں آنا چاہئے۔
٭٭…٭٭…٭٭