کیا خائن پارٹی سربراہ ہوسکتا ہے کوئی اخلاقیات ہیں یا نہیں:سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت /آئی این پی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیںکہ کوئی چوری کرتے پکڑا جائے تو کیا پارٹی سربراہ بن سکتا ہے؟ پارٹی سربراہ کےلئے کوئی اخلاقیات نہیں ہیں کیا، پارٹی سربراہ پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا کردار نہایت اہم ہے، پارٹی سربراہ براہ راست گورننس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، اگر کوئی شخص رکن اسمبلی نہیں بن سکتا تو سربراہ کیسے بن سکتا ہے، اگر ڈیکلیئر کردہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تو سینٹ الیکشن کا کیا ہو گا؟کیا متفقہ طور پر تیار کیا گیا قانون آئین سے متصادم نہیں ہو سکتا؟ بدھ کو سپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر قانون کالعدم ہو گیا تو سینٹ امیدواروں کا کیا ہو گا؟کیا سینٹ الیکشن دوباہ ہو گا؟اگر ڈیکلیئر کردہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تو سینیٹ الیکشن کا کیا ہو گا؟کیا قانون کالعدم ہونے پر واک اوورہو گا؟جب بنیاد ختم ہو جاتی ہے تو اس پر کھڑا ڈھانچہ گر جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002کا سیکشن 5نرالاتھا، سیکشن 5کے ذریعے پارٹی سربراہ کےلئے قدغن لگائی گئی، سیکشن 5آرٹیکل 17اور 19کی خلاف ورزی تھا۔ سیاسی جماعت کو اپنے لیڈر کے انتخاب کا حق ہے۔ آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق اراکین پارلیمنٹ پر ہوتا ہے، پارٹی سربراہ کےلئے آئینی اہلیت خاص دور میں قانون کا حصہ بنائی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سوالات کے آپ سے جوابات لینے ہیں۔ قانون کالعدم ہو تو پارٹی سربراہ کے جاری کردہ ٹکٹ کا کیا ہو گا؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ امید ہے ایسی نوبت نہیں آئے گی، آرٹیکل 62ون ایف کا اثر محدود ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایک بندہ جو چوری کرتے پکڑا گیا کیا وہ پارٹی سربراہ بن سکتا ہے؟وکیل نے جواب دیا کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ کی پارلیمانی کمیٹی نے منظوری دی۔ کمیٹی کے بعد بل کی پارلیمان سے منظوری ہوئی، کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیز کی نمائندگی تھی۔ عدالت نے الیکشن کمشن سے (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ کے فارم طلب کرلئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہمیں بتائیں سینٹ کےلئے پارٹی ٹکٹ کس نے جاری کئے؟عدالت نے 1997میں کی گئی 14ویں ترمیم کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 14ویں ترمیم کتنے وقت میں منظور ہوئی تھی؟14ویں ترمیم پر کیا بحث ہوئی؟اٹارنی جنرل ریکارڈ پیش کریں۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ انتخابی اصلاحات پر پارلیمنٹ نے انتخابی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی، پارلیمانی کمیٹی نے سب کمیٹی تشکیل دی جس نے تجاویز دیں، ذیلی کمیٹی نے 25دسمبر2016کو قانونی مسودہ تیار کیا جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں، قانون سے متعلق ذیلی کمیٹی میں بحث ہوئی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ متفقہ طور پرتیار قانون آئین سے متصادم نہیں ہو سکتا؟ پارٹی سربراہ کےلئے کوئی اخلاقیات ہیں یا نہیں؟ پارٹی سربراہ پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے،پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا کردار نہایت اہم ہے، پارٹی سربراہ راست گورننس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وکیل سلمان اکرم نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے کام کا طریقہ کار خود اختیار کرتی ہے، آئین میں نااہل شخص کے حوالے سے قانون موجود ہے، پارلیمانی پارٹی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی پابند نہیں ہوتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارٹی سربراہ نااہلی کا کیس الیکشن کمشن کو بھیجتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سربراہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کا پابند نہیں۔ وکیل نے بتایا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی سیاسی جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصل فیصلہ تو سربراہ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت سربراہ کے گرد گھومتی ہے، سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹیرینز کو کنٹرول کرتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ براہ راست کسی رکن کو نااہل نہیں کر سکتا۔الیکشن کمشن نے نااہلی کا جائزہ میرٹ پر لینا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا موقف احمقانہ اور مضحکہ خیز ہے۔ کیا پارٹی سربراہ کا حکومت سازی میں اختیار ہے؟ الیکشن کمیشن سے ریکارڈ منگوایا ہے، دیکھنا ہے پارٹی ٹکٹ کون جاری کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 14ویں ترمیم کس سیاسی جماعت کے دور میں ہوئی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارکان پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں؟ کیس کی مزید سماعت (آج) جمعرات تک کےلئے ملتوی کر دی گئی۔