بچوں سے زیادتی کے جرائم کی سزا موت سے کم نہیں ہونی چاہئے
قومی اسمبلی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی سزائوں میں اضافے کا بل متفقہ طورپر منظور کر لیا گیا۔ بل کے تحت بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ملزموںکی سزا جو پہلے کم سے کم 7 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال تھی ‘ اسے بڑھا کر کم سے کم 14 سال اور زیادہ سے زیادہ 20 سال تک کردیا گیا جبکہ جرمانہ 5 لاکھ روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔
بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات بھیانک صورت اختیار کر چکے ہیں۔ قصور میں 2015ء میں بچوں سے زیادتی اور ویڈیو بنانے کا سیکنڈل سامنے آیا اس کے بعد زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعہ نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی۔ اس کا وزیراعلیٰ ، آرمی چیف اور چیف جسٹس پاکستان نے سخت نوٹس لیا تو پولیس متحرک ہوئی۔ چند دن میں قاتل کو گرفتار کر لیا گیا۔ جس نے 9بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے کا اعتراف کیا، بچوں کے ساتھ زیادتی کے رپورٹ ہونے والے واقعات دل دہلا کر رکھ دیتے ہیں۔گذشتہ روز ٹنڈو محمد خان میں7 سالہ بچی کو زیارتی کے بعد آگ لگا دی گئی۔ دیگر مقامات پر دو کمسن بچوں اور دو بچیوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ بچوں کی ویڈیو بنانے کے واقعات سرگودھا اور ملتان میں سامنے آئے۔ گذشتہ روز اوکاڑہ کے قریب ایسے ہی سیکنڈل میں سکول ماسٹر کی گرفتاری عمل میں آئی۔ قصور میں ویڈیو بنانے کے جرم میں تین افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ گذشتہ روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مزید 4 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ قصور میں سینکڑوں بچوں سے زیادتی کے 14 مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ ان مقدمات کو بھی بلاتاخیر منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔بچوں سے زیادتی کے مقدمات میں اضافے کو قید اور جرمانوں کی سزائوں سے کم یا ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ان مقدمات میں کم از کم سزا موت ہونی چاہئے ۔ پارلیمنٹرین بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو بچوں کے ساتھ جرائم کی سزا پھانسی کو لاگو کرنا ہو گا۔ اب چونکہ بچوں سے زیادتی کے حوالے سے سزا کا معاملہ قانون سازی کے مرحلے میں ہے اس لئے ایسے جرائم پر سرعام پھانسی کی سزا بھی زیر غور لانی چاہئے۔