مو ٹر وے منصوبہ: منصوبہ بندی کی ضرورت تھی
کراچی ملک کی اقتصادی شہہ رگ اور ملک بھر کی تعمیر و ترقی کا سنگ میل ہے۔ اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ ملکی موٹر وے کا آغاز اہمیت اور ضرورت کے لحاظ سے شہرِ قائد سے ہونا تھا جبکہ اس کے وسائل اور آمدنی اپنی پسند کے دوسرے علاقوں پر لگاکر واہ وا کے تازیانے بجائے گئے اور آخر میں حکومت نے بادل نخواستہ بلکہ سچ پوچھئے تو ووٹ بینک بنانے کے لئے جاتے جاتے اس کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے تاہم اس کے لئے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ کراچی کے اس منصوبے کا آغاز ربع صدی پہلے ہونا تھا یاد رہے کہ اس کا رسمی افتتاح نوّے کی دہائی میں کیا گیا تھا۔
منصوبہ یہ تھا کہ ابتدا میں سہراب گوٹھ تا ٹول پلازہ تک آمدو رفت کے لئے اطراف میں باقاعدہ شاہراہیں تعمیر کی جاتیں ۔شاہراہِ پاکستان طویل عرصے سے نظرانداز کرنے کے بعد اب وسعت اور تعمیر کی طرف گامزن ہے۔ اس شاہراہ پر ایجوکیشن سٹی، بحریہ ٹائون، ڈی ایچ اے سٹی اور نوری آباد نے اس کی اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔ اب شاہراہِ پاکستان یا سپر ہائی وے پر دن رات کراچی تا پشاور سامان تجارت کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے سہراب گوٹھ تا ٹول پلازہ اور اندورنِ ملک سے آنے والا اور بیرونِ کراچی جانے والا ٹریفک اور لوگ نہ صرف اذیت کا شکار رہتے ہیں بلکہ دھول مٹی کی چادر کی وجہ سے ایک طرف حادثات میں اضافہ ہوا ہے ۔دوسری جانب لوگ خاک و دھول کی لپٹ میں آ کر مختلف خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں جن کا سد باب عدم دلچسپی اور صحتِ عامہ کی ذمہ داری سے غفلت کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ طبّی مسائل اور دگرگوںماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے صحت کے حوالے سے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں شروع کیا جانے والا موٹر وے منصوبہ غیر حقیقی منصوبہ بندی کا آئینہ دار ہے۔ سڑک کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ اس حوالے سے دیگر شہری اداروں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے تعمیر سے پہلے بجلی ، گیس ، پانی ، نکاسی آب کے کام پہلے انجام دینے چاہئیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب مستقبل میں جو مسائل ہونگے ان کا سدِ باب کیسے ہوگا اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ اس کے مقابلے میں پنجاب میں معیاری موٹر ویز تعمیر کی گئی ہیں جبکہ کراچی موٹر وے کا تعمیری منصوبہ FWOکے سپرد کیا گیا ہے جس کا بین الاقوامی معیار تصدیق طلب ہے۔ اس کو دیکھ کر محسوس یہ ہوتا ہے کہ جسے گلی کوچوں کی سڑک تعمیر کی جارہی ہے ۔ ابھی حال ہی میں لیاری ایکسپریس کا افتتاح ہوا ہے مگر اس کی نزاکت یا کمزوری کی وجہ سے اُس پر ہیوی ٹرانسپورٹ کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ غیرمعیاری اوورہیڈ برج اور لنک روڈ زمین بوس نہ ہوجائیں۔ اس طرح عرصہ پندرہ برس کی طوالت کے بعد مکمل ہونے والا غیر معیاری لیاری ایکسپریس وے اپنے آغاز سے ہی تباہی کے دہانے پر ہے اس وجہ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی دولت غیر معیاری منصوبوں کے لئے وقف ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے تعمیر ہونے والی کراچی موٹر وے میں ہمیں منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ شاہراہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں فاصلہ چھوڑ کر کیو ں بنائی جارہی ہے اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ خالی حصے کب بنیں گے کس سے پوچھا جائے۔عدالت عالیہ، نیب اور اربابِ اختیار سے یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ قومی وسائل اس طرح غیر معیاری میگا پروجیکٹس کی نذر نہ ہونے دیں بلکہ انصاف کے ترازو میں پرکھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ گزشتہ ۳۰برس میں جن بھی قومی تعمیری منصوبوں کی تکمیل ہوئی ہیں ان میں کتنی بدعنوانیاں کی گئی ہیں۔ کتنا گھی کھچڑی میںگیا اور کتنی کھچڑی دوستوں کے پیٹ میں؟ کراچی موٹر وے منصوبہ جس سست رفتاری سے غیر معیاری انداز میں جاری ہے اس سے گمان ہے کہ اس کی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور قوم پر بار بنے گا۔ ضروری ہے کہ کام کے معیار پر کڑی نظر رکھی جائے اور اس کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ شہرِ قائد کے باسیوں کو اذیت سے نجات ملے اور ملک کی اہم ضرورت پوری ہوسکے۔کاش کراچی موٹر وے پر شہریوں سے مشاورت کرلی جاتی۔