مودی کا فون‘ نوازشریف مسئلہ کشمیر اور پاکستان میں دہشتگردوں کی بھارتی پشت پناہی پر گفتگو سے احتراز پاکستان بھارت پر اپنا مؤقف واضح کرنے سے گریز نہ کرے
وزیراعظم نوازشریف کو گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹیلیفون کیا اور دو طرفہ تعلقات اور خطے میں امن و امان کی صورتحال سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان وزیراعظم ہائوس کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان 10 منٹ تک تبادلہ خیال ہوا۔گفتگو میں ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان پائی جانیوالی کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا اور دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے مستقبل میں بھی تمام مسائل گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔ ادھر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نے ٹیلفونک گفتگو میں کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل پاکستا نی ٹیم کیلئے نیک خواہشا ت کا بھی اظہار کیا۔ نریندر مودی نے کہا کہ کرکٹ ورلڈ کپ تمام ممالک کے مابین رابطوں کو فعال بنانے اور ممالک کو ایکدوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق مودی نے ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے دیگر ممالک کے سربراہان سے بھی رابطہ کیا اور ان سے ورلڈ کپ میں کامیابی کے حوالے سے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ ترجمان وزیراعظم ہائوس کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تمام تصفیہ طلب مسائل کا مذاکرات سے حل چاہتے ہیں، خطے میں قیام امن کیلئے خوشگوار پاکستان بھارت تعلقات ضروری ہیں۔ نریندر مودی نے بتایا کہ نئے بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر سارک ممالک کا جلد دورہ کرینگے، وہ پاکستان بھی آئینگے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ دونوں رہنمائوں نے انٹرا کشمیر تجارت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اکبر الدین نے کہا ہے کہ سیکرٹری خارجہ اپنے دورہ میں بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے تاہم انہوں نے دورہ کی کوئی مقررہ تاریخ نہیں بتائی۔
متحارب ممالک جس حد اور انتہاء تک بھی چلے جائیں‘ بالآخر معاملات مذاکرات کی میز پر ہی طے ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں نے بھی فتح کے باوجود بہت سے معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کئے تھے۔ بھارت مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں ہے لیکن رابطوں سے اس نے کبھی یکسر انکار نہیں کیا۔ رابطے ختم ہو جائیں تو معاملات گھمبیر سے گھمبیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بھارت مذاکرات خصوصی طور پر کشمیر پر بات چیت کیلئے تیار نہیں ہے۔ ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ اور کشمیر پر بات نہیں کرینگے‘‘ بھارت کا سرکاری مؤقف بن چکا ہے۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم بھی بھارت کے مؤقف کی تائید میں مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کر دیں۔ بھارت نے مذاکرات سے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی۔ 2008ء میں وزیر خارجہ کی سطح پر دہلی میں جامہ مذاکرات جاری تھے کہ ممبئی میں بم پھٹے‘ دھماکے ہوئے‘ دہشتگرد دو دن دندناتے پھرتے رہے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے لگا دیا۔ سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دہلی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ممالک کے مابین رابطے تو جنگوں کے دوران بھی کسی نہ کسی طریقے سے برقرار رہتے ہیں۔ مودی پاکستان کیخلاف اپنے خبث باطن کا اظہار کرکے اقتدار میں آئے تھے۔ ان سے پاکستان کیلئے خیر کی توقع ہی نہیں تھی‘ انہوں نے پاکستان کیخلاف نفرتوں کے اظہار میں کبھی گریز نہیں کیا۔ میاں نوازشریف انکی حلف برداری کی تقریب میں گئے تو بھی مودی سفارتی آداب کو نظرانداز کرکے اپنے پاکستانی ہم منصب کو دراندازی کے خاتمے کی تلقین کرنے لگے۔ ممبئی حملوں کے ملزموں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ کئی حلقوں نے مودی کی اس ’’ذرہ نوازی‘‘ کو چارج شیٹ کا نام دیا‘ اسکے ساتھ ہی کنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے اشتعال انگیزی میں اضافہ ہو گیا۔ یہ شرپسندی آج تک جاری ہے۔ اس دوران وزیراعظم مودی نے یکدم پلٹا کھایا اور پاکستان کے ساتھ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کا اعلان کر دیا۔ اس پر مودی کی پاکستان دشمنی سے آگاہ حلقوں میں حیرانی پائی گئی۔ مذاکرات کی تاریخ طے ہوئی اور چند روز بعد مودی انتظامیہ نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے حریت رہنمائوں کی ملاقات کو جواز بنا کر یکطرفہ طور پر مذاکرات منسوخ کردیئے۔
اب وزیراعظم نوازشریف کو نریندر مودی کا فون آیا تو کچھ حلقوں میں اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کی ممکنہ آمدکو پاکستان بھارت مذاکرات کی بحالی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ کچھ دانشوروں نے نریندر مودی کے فون کے پس منظر سے آگاہی کا تکلف بھی نہیں کیا اور رائے ظاہر کردی کہ اوباما کے ایماء پر مودی نے میاں نوازشریف کو فون کیا ہے۔ مودی نے ورلڈ کرکٹ کپ شروع ہونے سے قبل رسمی طور پر ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے تمام ممالک کے سربراہوں کو فون کرکے خیرسگالی کا اظہار کیا۔ ایس جے شنکر حالیہ دنوں بھارت کے سیکرٹری خارجہ تعینات ہوئے ہیں‘ وہ سارک ممالک کے دورے پر آرہے ہیں۔ سارک ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے‘ یہ بھی ان کا رسمی اور معمول کا دورہ ہو گا۔ کوئی خصوصی دورہ نہیں ہے۔ بہرحال دورے پر بہت سے مسائل پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
نریندر مودی کے ساتھ وزیراعظم نوازشریف کی فون پر بات ہوئی تو اس میں کرکٹ پر ہی گپ شپ لگتی رہی۔ معلوم نہیں نریندر مودی میاں نوازشریف کے ورلڈ کپ کے ایک وارم اپ میچ کھیلنے کا ذکر کرکے میاں نوازشریف کی تعریف کررہے تھے یاعمران خان کی کپتانی میں کھیلے گئے اس میچ پر تبصرہ کرکے میاں صاحب پر طنز کر رہے تھے۔ بہرحال میاں صاحب نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ خواہش ہے وہ دن پھر لوٹ آئیں۔ نریندر مودی کا فون جس تناظر میں بھی آیا‘ اس میں میاں صاحب پاکستان کے مؤقف پر بات کر سکتے تھے‘ مگر انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ کشمیر کے حوالے سے دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ تجارت پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم کے ترجمان کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان پائی جانیوالی کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان اسکی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی۔ لگتا ہے ترجمان نے زیب داستان کیلئے یہ چند روایتی جملے پریس ریلیز میں شامل کرلئے۔
میاں صاحب آزاد کشمیر جاتے ہیں یا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی تقریب یا سیمینار میں شرکت کرتے ہیں تو انکے خطاب سے لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور کشمیری ان کو دل و جان کی طرح عزیز ہیں۔ اگلے روز بات رات گئی بات گئی۔ جیسی ہو جاتی ہے۔ نریندر مودی سے ملاقات ہو یا فون پر گفتگو مسئلہ کشمیر کا ذکر زبان تک نہیں لاتے۔ جس روز فون پر گفتگو ہوئی اس سے ایک روز قبل ڈی جی‘ آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کے ساتھ ساتھ فاٹا میں بھی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ انہوں نے بھارت کو ایسی کارروائیوں سے باز رہنے کا بھی کہا تھا جس سے دہشت گردی کیخلاف جنگ متاثر ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کو خصوصی طور پر نریندر مودی کے ساتھ یہ معاملہ اٹھانا چاہیے۔
گو بھارتی سیکرٹری خارجہ ایک روٹین کے دورے پر پاکستان آرہے ہیں‘ انکے ساتھ مسئلہ کشمیر لائن آف کنٹرول اور پاکستان میں بھارت کی دہشتگردی خصوصی طور پر فاٹا میں دہشت گردی کی پشت پناہی پر ضرور بات کی جائے۔ اگر وزارت خارجہ کے حکام کی اپنا اصولی مؤقف بیان کرنے سے بھی ٹانگیں کانپتی ہیں تو فوجی ترجمان کا بیان بھارتی سیکرٹری خارجہ کے سامنے رکھ دیا جائے‘ ہو سکے تو نریندر مودی کو بھی ایک کاپی بھجوا دی جائے۔